میں محمد زبیر ہوں

   

پی چدمبرم
سابق وزیر داخلہ و فینانس

آج کل فیکٹ چیکنگ یا سچائی منظر عام پر لانے والی ویب سائیٹس کے کافی چرچے ہیں۔ فرضی یا جھوٹی خبروں کا پردہ فاش کرنے کیلئے حقائق کو منظر عام پر لایا جاتا ہے اور یہ کام کوئی آسان نہیں بلکہ ایک سنجیدہ کام ہے۔ فیکٹ چیکنگ یوں ہی خبروں کو پیش کرنا یا حقیقی غلطیوں سے ناجائز فائدہ اٹھانا نہیں ہوتا ہے اور یہ کام کوئی آسان بھی نہیں ، اس کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور یہ خبریں بڑا چڑھا کر یا تعریف و ستائش میں بھی پیش نہیں کی جاتی۔ اگر کوئی خبر یا رپورٹ کسی کی ناحق تعریف یا ستائش میں پیش کی جائے یا پھر اس خبر سے اپنے مفادات کی تکمیل کی جائے تو سمجھئے کہ یہ کسی بھی طرح سچی اور پکی خبر نہیں۔ فیکٹ چیکنگ کا کام اندھیرے میں تیر چلانا نہیں بلکہ پتھروں کے ڈھیر سے ہیروں کو تلاش کر کے انہیں الگ کرنا اور پتھروں پر نشان لگانا ہے۔ میرے سامنے فی الوقت دو جاذب النظر کتابچے اور کئی پمفلٹس ہیں اور تمام کے تمام عنوانات ’’8 سال: سیوا سوشن، غریب کلیان‘‘ ، خدمت ، بہتر حکمرانی اور غریبوں کی بہبود جیسے ہیں۔ حکومت ہند نے اپنے 8 سالہ دورہ اقتدار کی تکمیل پر 2014 ء سے انجام دیئے گئے کارناموں پر مبنی یہ کیٹلگس جاری کئے۔ مودی 2014 ء میں اقتدار پر آئے (31 مئی 2022 ء کو ان کی حکومت کے 8 سال مکمل ہوگئے) مودی حکومت کی جانب سے یہ کتابچے اور پمفلٹس انتہائی قیمتی کاغذ استعمال کرتے ہوئے تیار کئے گئے۔ دراصل یہ کہنا کہ 8 برسوں کے دوران کچھ نہیں کیا گیا بے وقوفی ہوگی۔ کوئی بھی حکومت جو ایک واجبی مدت تک اقتدار میں رہتی ہے اور عوامی رقم خرچ کرتی ہے ، یقیناً اس کے کریڈٹ میں کچھ کارنامے جائیں گے۔ مثال کے طور پر میرا یہ کہنا ہے کہ کوئی بھی حکومت جان بوجھ کر اپنی معیشت کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ جہاں تک ہماری قومی مجموعی پیداوار کا سوال ہے ، یہ سالانہ 5 فیصد کے حساب سے نمو پائے گی کیونکہ زراعت سردست خانگی شعبہ میں پائی جاتی ہے اور جہاں تک خدمات کا سوال ہے ، زیادہ تر خدمات بھی نجی شعبہ میں ہیں ساتھ ہی مینوفیکچرنگ شعبہ کا ایک بڑا حصہ بھی نجی شعبہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ ایک ایسی حکومت جس نے بہت کم کام کیا ہو، اسے کارناموں کی امیدیں بھی کم رکھی جانی چاہئے لیکن کوئی کوئی حکومت بڑی سرگرمی کے ساتھ اپنی ناقص پالیسی کے باعث نقصان پہنچاتی ہے تو اس کا محاسبہ کیا جانا چاہئے ۔ اس ضمن میں میں آپ کو نوٹ بندی کی مثال دیتا ہوں۔ مودی حکومت نے اچانک نوٹ بندی نافذ کی جس نے معیشت کو شدید متاثر کیا۔ مودی حکومت کی جانب سے جو دوسرے سرگرم نقصانات کئے گئے، اس کی بھی کئی مثالیں پیش کی جاسکی ہے ۔ میں حکومت کی نیت یا ارادوں پر سوال نہیں اٹھا رہا ہوں بلکہ غلط و ناقص پالیسیوں کے حکومت کی جانب سے مدافعت پر سوال اٹھا رہا ہوں کیونکہ حکومت اپنی غلط پالیسیوں کو درست ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائی ہے اور لگا رہی ہے۔ اس کی غلط پالیسیوں میں جی ایس ٹی قانون جیسی پالیسی بھی شامل ہیں اور دیکھا جائے تو مودی حکومت کی پالیسی ’’پیدائشی نقص‘‘ سے متاثر ہے، یعنی اس کی ابتداء ہی غلطیوں سے ہوئی اور پالیسی بھی کئی نقائص سے پر ہے۔ حکومت کی ایک اور غلطی انتخابی بانڈس ہیں۔ یہ ایسے پالیسی ہے جس کے تحت کوئی بھی سیاسی جماعت صنعتی گھرانوں کو تعاون و اشتراک کی اجازت دیتی ہے۔ کئی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جہاں تشکیل حکومت میں صنعتی گھرانے اثر انداز ہوئے۔ چاہے وہ انتخابات سے پہلے ہوں یا بعد میں۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی تازہ ترین مثال اگنی پتھ ہے ۔ ہمیں اس بات کا جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ مودی حکومت کی یہ اسکیم ہندوستانی فوج (بحریہ اور فضائیہ بھی) کو کنٹراکٹ سپاہیوں کی فوج میں تبدیل کردے گی اور یہ ایسی فوج ہوگی جس میں لڑنے کا عزم تھوڑا ہوگا اور قربانی کا جذبہ بھی کم ہوگا۔
اس مضمون کا موضوع دنیاوی ہے۔ حکومت نے اپنے کارناموں پر مبنی جو بھی کتابچے اور پمفلٹس شائع کئے اور ان میں جو کچھ دعوے کئے کیا وہ سچ ہیں، یہ بھی ایک اہم سوال ہے ۔ ان کتابچوں و پمفلٹس کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کی شان میں قصیدے پڑھے گئے ہیں اور پڑھنے والے ذہن میں یہ سوال بھی ضرور گردش کرتا ہوگا کہ آیا ان میں جان بوجھ کر جھوٹے اور گمراہ کن دعوے کئے گئے ہیں۔ مختلف ذرائع کی جانب سے حکومت کے دعوؤں کی جانچ کے لئے جو فیکٹ چیکنگ کی گئی ، اس کے نتائج حسب ذیل ہے۔
حد سے زیادہ تعریف و ستائش
دعویٰ : وزیراعظم آواز یوجنا (اربن) 2016 ء میں شروع کی گئی تاکہ شہری علاقوں میں رہنے والے تمام لوگوں کو 2022 ء تک قابل دسترس امکنہ کی سہولت فراہم کی جاسکے۔ متعلقہ وزیر کے مطابق عوام کی امکنہ ضروریات کا جائزہ لینے کے بعد 1.15 کروڑ مکانات کی تعمیر منظور کی گئی۔ 70 لاکھ مکانات کی تعمیر عمل میں لائی گئی اور 46 لاکھ مکانات استفادہ کنندگان کے حوالے کردیئے گئے۔
حقائق : دیکھا جائے تو 58.59 لاکھ مکانات کی تعمیر مکمل کی گئی اور اس اسکیم میں 31 مارچ 2022کے بعد توسیع نہیں کی گئی جبکہ ہمارے ملک میں ایسے لوگوںکی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہیں جو ٹاؤنس یا شہروں کی سڑکوں کے کنارے مقیم ہیں کیونکہ ان کے پاس رہنے کیلئے کوئی مناسب آسرا نہیں۔
دعویٰ : ملک کے 99.9 فیصد مکانات کو بجلی فراہم کی گئی۔
حقائق : اسمارٹ پاور انڈیا نے نیتی آیوگ کے اشتراک اور تعاون سے ایک سروے کا اہتمام کیا جس میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ ہندوستان کی 13 فیصد آبادی بجلی کیلئے نان گرٹ ذرائع استعمال کرتی ہے یا پھر کسی بھی قسم کی بجلی استعمال نہیں کرتی۔ جس دن وزیراعظم نے (میونخ میں) دعویٰ کیا کہ ہندوستان کے ہر گاؤں میں بجلی پہنچادی گئی ہے، تب میڈیا نے رپورٹ پیش کی کہ این ڈی اے کی صدارتی امیدوار شریمتی دروپدی مرمو کے آبائی گاؤں کے ایک قریہ میں بجلی پہنچانے کے جنگی خطوط پر اقدامات کئے جارہے ہیں۔ نیشنل فیملی ہیلت سروے (این ایف ایچ ایس 5 ) کے مطابق ملک کی 88 فیصد آبادی ایسے گھروں میں رہتی ہے جہاں بجلی ہے۔ یہ اعداد و شمار 2015-16 کے ہیں۔ مودی حکومت نے اس میں 1.1 فیصد کا اضافہ کرتے ہوئے اسے 96.8 فیصد تک پہنچایا ہے۔ یہ اعتراف کرنے میں کوئی شرم کی بات نہیں کہ ابھی تک کئی مواضعات اور دور دراز کے دیہاتوں میں بجلی نہیں پہنچائی جاسکی۔ اس طرح لاکھوں گھر ہنوز بجلی سے محروم ہیں۔
دعویٰ : ملک کے 4371 شہروں کو کھلے عام رفع حاجت سے پاک قرار دیا گیا اور بتایا گیا کہ سوچھ بھارت مشن ۔ گرامین اسکیم کے تحت صاف صفائی کے انتظامات میں صد فیصد اضافہ ہوا اور 8 برسوں کے دوران 11 کروڑ گھروں میں بیت الخلاء تعمیر کئے گئے ۔
حقائق : سال 2021 ء میں ساؤتھ ایشین لیبر نیٹ ورک کی جانب سے ایک سروے کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ہندوستان کی 45 فیصد آبادی ہنوز کھلے عام رفع حاجت سے فارغ ہوتی ہے۔ سروے میں یہ بھی پایا گیا کہ جو بیت الخلاء مکانات میں تعمیر کئے گئے ، ان میں سے 12 لاکھ بیت الخلاء کبھی تعمیر ہی نہیں کئے گئے۔ 4320 شہروں کو او ڈی ایف قرار دیا گیا ، صرف 1276 کے بارے میں بتایا گیا کہ وہاں حفظان صحت کا بہتر خیال رکھا گیا اور پانی کا بھی انتظام کیا گیا۔
دعویٰ : حکومت نے یہ دعویٰ کیا کہ 2022 ء تک ہندوستان کو ناقص غذا سے پاک کیا جائے گا ۔ تغذیہ بخش غذاؤں تک رسائی ، وپن : مشن پوشن، نتائج، اس کے لئے 181000 کروڑ کا جملہ تخمینہ لگایا گیا تاکہ مناسب تغذیہ کو یقینی بنایا جاسکے۔
حقائق : بھوک سے متعلق عالمی اشاریہ (اکتوبر 2021 ء) میں ہندوستان کو 116 ممالک میں 101 واں مقام دیا گیا۔ این ایچ ایف ایس 5 نے تو بہت زیادہ بری خبریں لائی ہیں۔ جس کے مطابق ہمارے ملک میں 15 تا 49 سال (57 فیصد) خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ صرف 11.3 فیصد بچے جن کی عمریں 6 تا 23 سال کے درمیان ہیں ، انہیں ناقص غذا مل رہی ہے۔ جو بچے ٹھٹرگئے ہیں انکی تعداد 35.5 فیصد ہیں اور جو ضائع ہوئے ہیں ، ان کی تعداد 19.3 فیصد بتائی گئی ہے۔
بہرحال مجھے ہیری ٹرومیان کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بھروسہ کریں لیکن تصدیق بھی کرلیں۔