نئی قومی تعلیمی پالیسی مرکزی کابینہ میں منظوری، کلیدی نکات جاری

   

ایم اے حمید
قومی تعلیمی پالیسی آزاد ہندوستان کی تیسری تعلیمی پالیسی ہے۔ اس سے پہلے دو قومی تعلیمی پالیسی 1968ء میں اندرا گاندھی کے دور میں اور 1986ء میں راجیوگاندھی کے دور میں بنی اور 1992ء میں جب پی وی نرسمہا رائو وزیراعظم تھے اس پر نظرثانی کی گئی۔ یوں تو 1977-79 میں جب جنتا پارٹی مرکز میں برسر اقتدار تھی اس وقت بھی نئی قومی تعلیمی پالیسی کی کوشش کی تھی لیکن اس کوشش کو سنٹرل ایڈوائزری ایجوکیشن بورڈ نے نامنظور کیا تھا۔ اب 2019ء کے نئی قومی تعلیمی پالیسی کو مرکزی کابینہ نے منظوری دی۔ بی جے پی کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہے اس لیے قومی تعلیمی پالیسی میں پائے جانے والی بے شمار خامیوں اور ملک کے سرکردہ ماہرین متعدد دانشوروں کے نشان دہی کردہ خاص، خطرناک اور مخصوص طرز فکر کا آئند قرار دیتے ہوئے مسودہ پالیسی کی مخالفت کی تھی لیکن مرکز اس پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ اس کو ملک کے موجودہ حالات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کابینہ سے منظوری دے دی۔ حالانکہ مسودہ کے بابت حکومت نے دعوی کیا ہے کہ یہ پالیسی نئے ہندوستان کی تعمیر میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل کو تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے جو عوامی رائے طلب کی گئی تھی اس میں دو لاکھ سے زائد تجاویز موصول ہوئی تھیں لیکن اس کو حکومت نے برفدان کی نذر کرتے ہوئے رائے عامہ کی کوئی پرواہ نہیں کی۔
مرکزی حکومت نے ملک کے تعلیمی نظام اور نظریہ و طریقہ کار میں بڑی تبدیلیوں کے ساتھ نئی قومی تعلیمی پالیسی 2019ء کو 29 جولائی 2020ء کو منظوری دے دی یوں تو آزادی کے دو نئی قومی تعلیمی پالیسیاں 1968ء اور 1986ء میں بنائی گئی لیکن موجودہ مودی سرکار نے ٹی ایس آر سبرامنیم کی 2016ء تعلیمی سفارشات اور کستوری رنگن 2018ء سابق صدر ISR کی تعلیمی رپورٹ دونوں کی پالیسیوں کو اس نئی قومی تعلیمی پالیسی میں شامل کیا گیا ہے۔ 10+2 جماعتی درجہ کی اسکولی سطح کی تعلیمی نظام کو 5+3+3+4 جملہ 15 جماعتوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا جارہا ہے۔ پہلے اسکول 10 ویں اور انٹر جونیئر کالج 12 ویں درجہ تک تھا۔ یہ درجہ بندی کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے نام اور جماعتوں کو منقسم کرتے ہوئے ابتدائی 5 سال پری پرائمری اسکول پی پی اور پہلی جماعت، دوسری جماعت تک پرائمری اسکول تین جماعتیں تیسری، چوتھی، پانچویں مڈل اسکول میں چھٹی، ساتویں، آٹھویں جماعت اور سکنڈری سطح میں 9 ویں تا 12 ویں جماعت کو شامل کردیا گیا۔ اس سے اسکول ہائی اسکول، سینئر سکنڈری، ہائر سکنڈری +2 درجہ کو ختم کرتے ہوئے صرف سکنڈری کا نام کردیا گیا ہے۔ یہاں یہ خام خیالی ہے کہ 11 ویں یا 12 ویں کے بورڈ میں ہونے والا ہے۔ دسویں سطح کا بورڈ اور امتحان 12 ویں درجہ کا بورڈ اور امتحان برقرار رہے گا۔ صرف اس کو سکنڈری سطح پر کردیا گیا۔ ایسے دسویں اور بارہویں کے ہر ریاست میں الگ الگ ہیں۔ انٹرمیڈیٹ، پی یو سی، ایچ ایس سی، ہائیر سکنڈری وغیرہ میں اب پورے ملک میں ہی اسکولی تعلیمی نظام رائج رہے گا۔ بارہویں تعلیم کے بعد ہی طلبہ اسکول سے فراغت حاصل کریں گے۔ چھٹی جماعت سے سہ لسانی فارمولہ پر عمل کیا جائے گا۔ علاقائی، مقامی اور مادری زبان کو اہمیت دی جائے گی۔ انگریزی پر کم توجہ ہوگی۔
بنیادی طور پر ہندوستان کے نئے تعلیمی نظام میں اب ہندی اور سنسکرت کو اہمیت دی جائے گی۔ انڈر گریجویشن ڈگری سطح کو تین سال کے بجائے چار سال کردینے کی تجویز ہے اور ایم فل کو برخواست کرتے ہوئے پی جی کے بعد Ph.D کی سہولت رہے گی۔ یونیورسٹی اور اعلی تعلیمی اداروں کے قومی بااختیار ادارہ یو جی سی اور AICIE آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن کو ختم کردیا جائے گا۔ پھر یونیورسٹی الحاق، منظوری کے طریقہ کار کو بھی ختم کردیا جائے گا۔ تمام ڈگری کالجس کو بھی خود مختار Autonomous کردیا جائے گا۔ نئی تعلیمی پالیسی کو سال 2025ء تک مکمل روبہ عمل لاتے ہوئے وسیع پیمانے پر تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے تاکہ ہر دوسرا شخص تعلیمیافتہ رہے۔ جنرل ڈگری کورس تین سال اور پیشہ وارانہ کورسز انجینئرنگ، فارمیسی میڈیسن چار یا زائد رہیں گے۔ امتحانی اصلاحات میں کریڈٹ سسٹم اور اختیاری بنیاد Choice Based کے ذریعہ نرمی دی جائے گی۔ فاصلاتی اور اوپن لرننگ سسٹم کو وسعت دی جائے گی۔ ٹیچرس ایوکیشن کو چار سالہ کرتے ہوئے انٹر 10+2 کے بعد داخلہ ہوگا اور اس کے بعد ماسٹر ڈگری کرنے کی سہولت رہے گی۔ پروفیشنل کورسز کی اعلی تعلیم میں بھی مکمل تبدیلی کی گنجائش رکھی گئی۔ قومی تعلیمی مشن کا قیام جس طرح راشٹریہ شکشا آیوگ سے موسوم ہوگا۔ تمام پروگرامس کے نفاذ کی ذمہ داری ہوگی اور وزیراعظم اس کے سربراہ ہوں گے۔
مسودہ قومی تعلیمی پالیسی 2019ء
59 صفحات پر مشتمل اردو میں بھی دستیاب
قومی تعلیمی پالیسی کا مسودہ ہندوستان کے تمام زبانوں میں دستیاب ہے۔ اردو زبان میں بھی اس کا کتابچہ 59 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں اسکولی تعلیم، اعلی تعلیم، تعلیم اساتذہ پیشہ وارانہ تعلیم و فنی تعلیم، قومی تحقیقی فائونڈیشن، تعلیم میں ٹکنالوجی، تعلیم بالغان، ہندوستانی زبانوں کا فروغ، تعلیم کی مالی سرپرستیاں، راشٹریہ شکشا ایوگ کے تحت اس کا مکمل خلاصہ اور کلیدی نکات کو شامل کیا گیا ہے۔ موجودہ مرکزی وزارت برائے فروغ و انسانی سائل MNRD کو بدل کر وزارت تعلیم کردیا گیا ہے۔ پہلے مرحلہ میں 3 سال تا 6 سال کے بچے کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم کی دستیابی کو یقینی بنانے حق تعلیم قانون RTE 2009ء کو مزید توسیع دی جائے گی۔ ایک سوالیہ نشان اور تشویشناک بات یہ ہے کہ کم ازکم 5 ویں سطح تک تعلیم مقامی زبان یا علاقائی زبان میں ہو۔ اس سے انگلش میڈیم اسکول اور پری پرائمری اسکول کو شدید خدشات لاحق ہوسکتے ہیں۔ پورے ملک میں سہ لسانی فارمولہ کو پوری طرح نافذ کیا جائے گا۔ اس کی تمل ناڈو میں زبردست مخالفت شروع ہوچکی ہے۔ 2020ء کے اواخر تک نئے نصاب کو تیار کیا جائے گا اور اعلی تعلیم کے ترجمے کئے جائیں گے۔

اساتذہ جو قوم کے معمار مانے جاتے ہیں اس پالیسی میں اساتدہ کو تبدیلی کا علمبردار بتاتے ہوئے ان کے لیے بارہویں کے بعد چار سالہ بی ایڈ کورس اور راست روزگار فراہم کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے اور ٹیچرس تقررات کو یقینی بنانے TET ٹیچرس اہلیتی امتحان کو ازسر نو ترتیب دیا جائے گا۔ 2022ء تک پیرا ٹیچر کم لیاقت والے یا ان ٹرینڈ کے رواج کو ملک بھر سے حتم کردیا جائے گا۔ اور اساتذہ کے کام میں سہولت دی جائے گی۔ دیگر سرکاری خدمات جیسے الیکشن ڈیوٹی سے دور رکھا جائے گا۔ اسکولی تعلیم اور اساتدہ کے مذکورہ بالا نکات 24 صفحات پر ہیں۔ ہر اعلی تعلیم میں ادارہ جاتی ڈھانچہ کو یکسر بدلنے کی تجویز ہے اور اس کا نشانہ 2035ء تک کا رکھا گیا ہے۔ تمام یونیورسٹیاں یا ڈگری دینے والے خود مختار کالج ہوں گے۔ اس کے لیے خاطر خواہ سرکاری سرمایہ کاری کی جائے گی۔ گریجویشن سطح کی تعلیم کو اآزادانہ تعلیم کے تحت تین سالہ / چار سالہ انڈر گریجویشن کو ایک سال، دو سال تین سال کے دوران مکمل کرنے پر جو آزادانہ موقف ہے Libral Degree میں ایک سالہ ڈگری کے بعد سرٹیفکیٹ ڈگری، دو سال کے تکمیل کے بعد ڈپلوما، ڈگری، تین سال کے بعد بیچلر ڈگری دی جائے گی۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی کی اردو PDF کاپی 59 صفحات میں دستیاب ہے اس کو 9290201021 پر واٹس ایپ پر طلب کرسکتے ہیں۔