پی چدمبرم … سابق مرکزی وزیر داخلہ
پندرہ اگسٹ کو جشن آزادی کے موقع پر عزت مآب وزیراعظم نے 1000 سالہ غلامی کے خاتمہ کے بارے میں بات کی اور ساتھ ہی عظمت کے 1000 سال کے آغاز کے بارے میں بتایا ۔ بظاہر دونوں ہزارسال اس مقام پر ملے جہاں وہ ( مودی ) کھڑے تھے اور بالکل اسی لمحہ دونوں ہزار سال کا ملن ہوا جب وہ خطاب کررہے تھے ( ویسے بھی مودی جشن آزادی سے اپنے خطاب میں اسی طرح کا تاثر دے رہے تھے جیسے غلامی کے 1000 برسوں کا اختتام اور وقار و عظمت کے ہزار سال کی شروعات کا کریڈٹ اُنھیں جاتا ہو حالانکہ جدوجہد آزادی اور مادرِ وطن کو انگریزی کی غلامی سے آزادی دلانے میں کس کا کیا کردار رہا سب پر واضح ہے ۔ کس نے قربانیاں دیں ، کس نے انگریزوں کی چاپلوسی کی سب جانتے ہیں )۔ اگر یہ سچ ہوتا تو ان کی تقریر اتنی ہی عہدساز ہوتی جتنی اس سے پہلے کے چند واقعات عہدساز تھے ۔ سدھارتھ کی روشن خیالی ، یسوع مسیح کی ولادت اور پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر قرآن مجید کا نزول یا مادی لحاظ سے زمین کی کشش ثقل کے باعث سیب کے گرنے ، بجلی کی دریافت ، ٹیلی فون کی ایجاد ، رائٹ برادران کی پرواز ، جوہر کے پھٹنے یا انسان کے چاند پر اُترنے جیسے تمام واقعات کو بلاشک و شبہ عہدساز کہا جاسکتا ہے اور عہدساز کہا بھی جانا چاہئے ۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ میں مذکورہ عہدساز واقعات کا گواہ نہیں تاہم دنیا میں روز بروز ہورہے واقعات کا گواہ ہوں ۔
مسٹر راج دیپ سردیسائی نے انڈیا ٹوڈے پر اپنے شو میں دو ارکان پارلیمنٹ بی جے پی کے مسٹر جینت سنہا اور کانگریس کے مسٹر ششی تھرور کو آمنے سامنے لایا ۔ تعلیمیافتہ باشعور ناظرین اور قابل ترین کالج طلبہ کے سامنے دونوں ارکان پارلیمنٹ سے انتہائی اہم سوالات کئے ۔ ہندوستان کا اپنی آزادی کے 100 سال میں کیسا ہونا چاہئے اس بارے میں دونوں مہمانوں کے ابتدائی بیانات باالفاظ دیگر شو کے افتتاحی کلمات نے میری بے چینی میں اضافہ کیا ۔ مسٹر جینت سنہا نے 2047 ء تک ہندوستان کی مربوط ترقی کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا جبکہ مسٹر ششی تھرور نے 2047 ء تک ایک شمولیاتی ہندوستان کیلئے نیک خواہشات ظاہر کی ۔ دونوں کی نیک تمناؤں پر میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہو ا کہ 2047 ء تک نہ صرف ہندوستان کی مربوط ترقی ہو بلکہ ہندوستان ایک ایسا شمولیاتی ملک بنے جس کی ترقی خوشحالی میں بلالحاظ مذہب و ملت ، رنگ و نسل ذات پات و علاقہ ہر شہری کو مساوی مواقع حاصل ہوں ۔ دونوں ارکان پارلیمنٹ کے خیالات کی سماعت کرتے ہوئے جو اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے موقف کو دہرارہے تھے میں اس اذیت ناک سوچ کے ساتھ رہ گیا کہ شائد ہندوستان میں دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ۔
واضح تضاد : اس کالم میں، میں دستور ہند کے تحفظ اور اس تحفظ سے متعلق مسٹر جینت سنہا کے عہد کو تلاش کرنا چاہتا ہوں ۔ انھوں نے راج دیپ سردیسائی کے ایک سوال کے جواب میں سیکولرازم ، وفاقیت اور انسانی حقوق کے تحفظ کی بھرپور حمایت کی ساتھ ہی قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے اور احتساب کے نفاذ کا وعدہ کیا ۔ مسٹر دیسائی کے راست سوالات کے جواب میں مسٹر جینت سنہا نے واضح طورپر کچھ یوں جواب دیا ، ہاں آپ کو شادی کا حق ہے ، آپ کو کھانے کا حق ہے اور آپ کو اپنے مذہب پر چلنے اس پر عمل کرنے کا حق ہے ، پلک جھپکے بنا ، انھوں نے پرزور انداز میں کہا ’’میری اپنی پارٹی میں ہم اپنے اختلافات کا اظہار کرسکتے ہیں ، یقینا میں نے اپنی پارٹی کی سینئر قیادت سے ملاقات کی اور باہمی تشویش و دلچسپی کے اُمور پر بات کی ۔
اس سوال پر کہ 2047 ء میں ان کیلئے سب سے اہم کیا چیز ہوگی ؟ مسٹر سنہا نے جواب میں کہا ’’آزادی اور آزادی ‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ مسٹر سنہا حقیقت میں ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں جن کا انھوں نے راج دیپ سردیسائی کی میزبانی میں ہوئے شو میں اظہار کیا ۔ دوسرے دن ملک کی 77 ویں یوم آزادی کے موقع پر عزت مآب وزیراعظم نے 95 منٹ تک خطاب کیا ۔ میں نے وزیراعظم کی تقریر کا انگریزی ترجمہ پڑھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وزیراعظم کی تقریر میں ،میں اور میری تقریر ہے۔ انھوں نے ان چیزوں کو اپنے کارناموں کے طورپر بیان کیا جو 9-10 برسوں کے دوران ان کی حکومت میں کی گئیں حد تو یہ ہے کہ ان کی تقریر کا مطالعہ کرنے سے ایسا لگا کہ وزیراعظم نے خفیہ زبان کا بھی استعمال کیا ۔ بدعنوانی یا کرپشن موروثی یا خاندانی سیاست اور خوشامدی کی سیاست پر آواز اُٹھائی ۔ وزیراعظم کی تقریر میں استعمال کردہ الفاظ اور لب و لہجہ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آخر انھوں نے اپنی تقریر کے ذریعہ کس کو نشانہ بنایا ؟ اپوزیشن قائدین ، گاندھی خاندان اور مسلمان ان کا نشانہ تھے ۔ ایک مرحلہ پر تو ایسا گزر رہا تھا کہ ان کی تقریر کسی انتخابی ریالی کا ریہرسل ہو ۔ یعنی وزیراعظم کسی انتخابی جلسہ سے خطاب کی تیاری کررہے ہوں ۔ اگر دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ 9-10 برسوں میں کچھ بھی نہیں بدلا ۔
آئیے پھر مسٹر جینت سنہا کے بیانات کی طرف لوٹتے ہیں اور ان کے بیانات کو عزت مآب وزیراعظم کی تقریر سے جوڑتے ہیں ۔ مسٹر سنہا کالج کے طلبہ کو اس بات کی یقین دہانی کراتے رہے کہ صدسال 2047 ء ملک کی تاریخ کا ایک سنہری دور ہوگا لیکن عزت مآب وزیراعظم نے ملینیم کی توضیح و تشریح کرتے ہوئے مسٹر سنہا نے جن چیزوں کا وعدہ کیا تھا ان وعدوں میں سے کسی کی بھی طرف اشارہ تک نہیں کیا ۔ حد تو یہ ہے کہ دستور کے تحفظ کی بھی بات نہیں کی نہ ہی سیکولرازم یا وفاقیت یا حقوق انسانی کے تحفظ کا انھوں نے کوئی حوالہ دیا ، یہاں تک کہ قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کی بات کرنے سے بھی گریز کیا ۔ احتساب نافذ کرنے کی بھی بات نہیں کی ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ وزیراعظم نریندر مودی اور مسٹر جینت سنہا جیسے بی جے پی قائدین ہمیشہ یہی دعوے کرتے رہتے ہیں کہ بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے 9-10 برسوں کے دوران ہندوستان کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچادیا ہے ۔ ہندوستان ترقی و خوشحالی کی کتنی بلندیوں پر پہنچ گیا یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں ( ملک میں بیروزگاری ، فرقہ پرستی ، ناانصافی ، عدم مساوات ، تعصب و جانبداری یقینا اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئے ہیں) یہ وہ حقیقت ہے جس سے کوئی انکار بھی نہیں کرسکتا ۔ اب آئے مسٹر جینت سنہا کے بیانات کو ہروز اخبارات ، ٹیلی ویژن چیانلوں اور سوشل میڈیا پر جو شائع کیا جاتا ہے یا نشر کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ملاکر دیکھتے ہیں ۔ اگر کالج کے نوجوان طالب علم کو اپنی پسند سے کسی کے بھی ساتھ شادی کرنے کا حق ہے تو پھر بین مذہبی اور بین ذات پات جوڑوں کو ہراساں کیوں کیا جارہاہے ۔ انھیں زدوکوب کیوں کیا جاتا ہے یا ہجومی تشدد کا شکار کیوں بنایا جاتا ہے ؟ اگر کالج کے نوجوان طالب علم یا طالبہ کو اپنی پسند کی غذا ( کھانے ) کھانے کا حق حاصل ہے تو پھر کرناٹک میں حلال اور غیرحلال گوشت پر آخر کیوں تنازعہ پیدا کیا گیا ؟
اگر ایک کالج اسٹوڈنٹ کو کسی بھی مذہب اپنانے اور اس پر چلنے کا حق ہے تو پھر بجرنگ دل ، ہندو مہا پنچایتوں اور دائیں بازو کی تنظیموں کا کیا کردار ہے اور ان میں آخر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز و اشتعال دلانے والی تقاریر کیوں ؟ ان سب سے ہٹ کر آخر ماحول میں ہمارے اطراف و اکناف تشدد کیوں ؟ اگر قانون کی حکمرانی کی برقراری کا وعدہ سچ ہے تو پھر دہلی میں فسادات برپا کیوں ہوئے ، منی پور میں خانہ جنگی کیوں چھڑ گئی ، نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کیوں پھوٹ پڑے؟ آخر کیوں تمام بلڈوزروں کا استعمال صرف غریبوں اور چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والوں کی دوکانات زمین دوز کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اگر دستور کے تحفظ کا وعدہ سچ ہے تو پھر آخر کیوں پارلیمنٹ میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے کیلئے قانون منظور کئے گئے ؟ آخر کس لئے لیفٹننٹ گورنر اور دہلی کی منتخبہ حکومت کے درمیان دستوری توازن میں بگاڑ پیدا کیا گیا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے بی جے پی قائدین کے پاس کوئی جواب نہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ مسٹر سنہا اور چند دوسرے بی جے پی قائدین سیکولر اور آزاد خیال ہیں وہ موجودہ دستور کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں تاہم بدبختی کی بات یہ ہے کہ ان کی پارٹی قیادت نے اُنھیں بہت پہلے ہی نظرانداز کرکے رکھ دیا ہے ۔