نادیہ ندیم: افغانستان کی پناہ گزین یورپ کی متاثرکن فٹ بالر اور ڈاکٹر

   

کوپن ہیگن: فٹبالر نادیہ ندیم، جسے بچپن میں اپنے خاندان سمیت افغانستان سے بھاگنا پڑا تھا، آج یورپی معاشرے میں دھوم مچا رہی ہے۔ وہ نہ صرف یورپ کی معروف فٹبالرز میں شامل ہے بلکہ ایک قابل ڈاکٹر بھی ہے جو 11 زبانیں بول سکتی ہیں۔ کئی یورپی ممالک میں جہاں نادیہ نے کھیلا، نوعمر لڑکیاں اور نوجوان خواتین اس افغان نژاد اسٹار کے کارناموں کی تقلید کرنا چاہتی ہیں۔ نادیہ اب ڈنمارک میں رہتی ہے، اور بین الاقوامی فٹ بال ٹورنامنٹس میں ڈنمارک کی نمائندگی کرتی ہے۔ وہ ڈنمارک کے لیے 105 میچز کھیلتے ہوئے 38 گول کر چکی ہیں۔ پچھلے سال اس نے جنوری 2024 میں اٹلی کے مشہور کلب اے سی میلان کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے اپنا یو ایس کلب ریسنگ لوئس ول چھوڑ دیا تھا۔ اب 37 سال کی عمر میں بھی نادیہ چستی و پھرتی میں دکھائی دیتی ہیں۔ نادیہ کی پیدائش ہرات، افغانستان کے ایک متمول گھرانے میں ہوئی۔ اس کے والد کا شمار فوج کے اعلیٰ عہدے داروں میں ہوتا تھا، لیکن اس کے بچپن کے خوشگوار دن اس وقت ختم ہو گئے جب اس کے والد کو طالبان نے قتل کر دیا۔ تب وہ 11 سال کی تھی۔ اپنی جان کے خوف سے اس کی ماں کو اسے اور دوسرے بچوں کو لے کر افغانستان سے پاکستان کو بھاگنا پڑا تھا۔ دوستوں کی مدد اور مشورے سے نادیہ کے خاندان نے کئی ممالک کا سفر کیا اور آخر کار ڈنمارک پہنچے جہاں انہیں پناہ گزینوں کے طور پر پناہ دی گئی۔ ڈنمارک میں ہی نادیہ نے پہلی بار اپنے پناہ گزین کیمپ کے قریب ایک میدان میں فٹ بال کا کھیل دیکھا۔ نادیہ نے بھی پہلی بار فٹ بال آزمایا اور Aalborg GUG نامی چھوٹے مقامی کلب میں کھیلنا شروع کیا۔ نادیہ نے بڑی ہونہاری کا مظاہرہ کیا اور خود کو پورے یورپ کے نمایاں خاتون فٹ بالرز میں شامل کیا۔ وہ مانچسٹر سٹی، پیرس سینٹ جرمین، ریسنگ لوئس ول (امریکہ میں) سمیت تمام معروف کلبوں کے لیے کھیل چکی ہے اور اب وہ اے سی میلان کی لائن اپ میں ہے۔ لیکن یہ صرف نادیہ ہی نہیں ہے جو کھیل اور زندگی میں سب سے اوپر پہنچی ہے۔ اس کے دوسرے بہن بھائیوں نے بھی اچھا کام کیا ہے۔ ایک بہن ڈیانا اس وقت ڈنمارک کی نمبر 1 باکسر ہے، یورو انڈر 19 چمپئن ہے، اور دنیا کے تین ٹاپ باکسرز میں سے ہے۔ دیگر بہن گیتی میڈیسن پڑھتی ہے اور ویجلے کے لیے پروفیشنل فٹ بال کھیلتی ہیں۔ مسکان اور مجدہ نامی دو اور بہنیں طب کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ والدہ حمیدہ اس وقت ڈنمارک میں افغان کمیونٹی کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ لیکن جب وہ پہلی بار ڈنمارک پہنچے تو یہ سب کچھ آسان نہیں تھا۔ حمیدہ کو اپنے ساتھی افغان مہاجرین کے بہت سے منفی تبصروں کا سامنا کرنا پڑا۔ میڈیا کی جانب سے اس فیملی کو وسیع کوریج دینے کے بعد ہی افغان کمیونٹی کے افراد نے آہستہ آہستہ اپنے خیالات بدلنا شروع کئے۔ نادیہ کا یہ کارنامہ ویمنس فٹ بال کے لیے بڑا کارنامہ ہے، اور یہ ڈنمارک میں چھوٹی افغان کمیونٹی کے لیے تاریخی سنگ میل بھی ہے۔ نادیہ کی کامیابیاں دیگر افغان پناہ گزین بچوں کے مستقبل پر کتنا اثر انداز ہوں گی، یہ دیکھنا باقی ہے؟ لیکن پہل تو ہوچکی ہے۔ چنانچہ نادیہ اور اس کا خاندان ڈنمارک کو آیا اور دلوں کو فتح کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔