نازی جرمنی اور آر ایس ایس و بی جے پی میں مسابقت

   

پروفیسر شمس الاسلام
ہندوستانی حکمراں طبقات کو اقتدار کا نشہ اسی طرح چڑھ چکا ہے جیسا کہ ان کے دنیا بھر کے ہم منصبوں کو چڑھا تھا۔ وہ اپنے مخالفین اور ان کے برے کارناموں کو کچلنے کے سلسلہ میں اتنے ہی بے رحم ہیں۔ ماضی میں اپنے خلاف عوامی تحریکات کو ناراضگی کے اظہار کو کچلا نہیں جاتا تھا اور اسے طنز سمجھا جاتا تھا۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانکا کے بموجب طنز کا مطلب ایک خوبصورت نوعیت ہے جو زیادہ تر ادبی اور ڈرامائی کو جس میں انسانی یا انفرادی برائیاں، حماقتیں، بدسلوکیاں، کوتاہیاں کبھی بھی بلند مقام نہ رکھتی ہوں اور نہ اس کی سرزنش اور مذاق اڑانے کو سربلند کیا جاتا تھا فیصلے دفتر شاہی، اتفاق رائے سے یا پیروڈی اور کارٹون یا دیگر طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے مذاق اڑایا جاتا تھا۔ بعض اوقات اس کا مقصد سماجی اصلاحات کی تحریک دینا ہوتا تھا۔ اس کا مقصد انفرادی طور پر شرم کا احساس پیدا کرنا اور اداروں اور حکومتوں کو بہتر کارکردگی کی تحریک دینا ہوتا تھا۔
جدید ہندوستان کی تاریخ میں تنقید کرنے والوں کو سزائے موت دینے کے مناظر دیکھے گئے ہیں۔ کثیر تعداد میں متعلقہ قدیم دستاویزات ڈھونڈ کر پیش کی جارہی ہیں جن کا تعلق برطانیہ کے دور حکومت سے ہے۔ غیر ملکی حکمرانوں نے جو قدیم مواد چھوڑا ہے اسے قومی آثار قدیمہ برائے ہندوستان دہلی میں ایک علیحدہ شعبہ میں جسے ممنوعہ ادب جس میں سینکڑوں کتابوں، مضامین، لطیفوں، نظموں، ڈراموں کی کثیر تعداد محفوظ کردی گئی ہے جنہیں غیر ملکی حکمرانوں نے ممنوع قرار دیا تھا۔
ہندی میں 138 اور اردو میں 68 مضامین ممنوع قرار دیئے گئے تھے۔ اسی طرح ہندی میں 264 اور اردو میں 58 نظموں پر امتناع عائد کیا گیا تھا۔ انگلش اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور نظمیں لکھی گئی تھیں جن کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ برطانوی حکمرانوں میں علاقائی آثار قدیمہ میں ایک شعبہ ممنوعہ ادب کے لئے قائم کیا تھا جس میں کثیر تعداد میں ایسے مضامین اور نظمیں جو انگلش اور دیگر ہندوستانی زبانوں میں لکھی گئی تھیں محفوظ کردی گئیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آزاد ہند میں بھی اس قسم کی غیر رواداری ادب اور دیگر فنون لطیفہ کے کارناموں کے ساتھ جاری رکھی گئی ہے اور انہیں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان میں ہندوستانی مصنفین کی تحریریں اور فنکاروں کے کارنامے بھی شامل کئے گئے ہیں۔ ان تمام فنکاروں کو دوسرے ممالک کو منتقل ہونے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ تنقید کرنے والوں کے خلاف کارروائیوں میں شدت پیدا ہوئی جبکہ آر ایس ایس اور بی جے پی حکومتیں 2014 میں مودی کے زیر قیادت اقتدار میں آئیں۔ گولوالکر کی ہندو قوم پرستی غیر قدرتی تھی جس میں آر ایس ایس کے نظریات کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ گولوالکر کے بیانات شامل کئے گئے تھے جو 1350 میں انہوں نے اور آر ایس ایس کے اعلیٰ سطحی قائدین نے آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹرس میں ریشم باغ کے مقام پر 1940 میں دیئے تھے۔ آر ایس ایس نے ایک پرچم، ایک قائد اور ایک نظریہ کو فروغ دیا اور اس عظیم سرزمین پر ہندوتوا کا شعلہ جلایا۔ بعد ازاں آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر بھارتیہ وچار سادھنا ناگپور بنا دیا گیا۔
نازی حکومت کے ممنوعہ طنزیہ ادبی شاہکار
حکومت اور قیادت کے خلاف تنقید پر مبنی تمام ادبی کارناموں کو ممنوعہ قرار دینے کا ماضی دور حکومت میں خطرہ لاحق ہے، دیگر سنگین نتائج بشمول سزائے موت بھی نکل سکتے تھے۔ جیسا کہ آثار قدیمہ کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے۔ چند لطیفے جن کی بنیاد پر جرمن عوام کو سزا دی گئی تھی حسب ذیل ہیں:۔
-1 سورج اور ہٹلر میں کیا فرق ہے؟ سورج مشرق سے طلوع اور ہٹلر مشرق میں غروب ہوتا ہے۔ -2 ہندوستان اور جرمنی میں کیا فرق ہے؟ ہندوستان میں سب کے لئے ایک شخص (گاندھی) فاقہ کرتا ہے جبکہ جرمنی میں ایک شخص (ہٹلر) کے لئے تمام جرمن عوام فاقے کرتے ہیں۔ -3 مقبول جرمن گلوکارہ زارا لنڈر کو روزانہ ہٹلر کے ہیڈ کوارٹر پر طلب کیا جاتا ہے کیوں؟ تاکہ اسے گانا پڑے کہ مجھے یقین ہے کہ کسی نہ کسی دن کوئی کرشمہ ہوگا۔
حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں تاخیر نہیں کی جاتی۔ 3 مارچ کو مودی حکومت کے خلاف تنقید پر انوراگ کیشپ کو سنگین نتیجہ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی قیام گاہ پر دھاوا کیا گیا۔ اپوزیشن کو حکومت مخالف پالیسیوں کے نتیجہ میں غدار قرار دے کر ان کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اب وہ دن دور نہیں کہ جب ہندوستان جلد ہی عالمی استاد بن جائے گا اور تنقید کرنے والوں کے خلاف نازیوں کی کارروائیاں صرف کہانی بن کر رہ جائیں گی۔