ناز اتنا نہ کریں ہم کو ستانے والے

,

   

لوک سبھا …راہول ہوئے مودی پر بھاری
ظلم کے خلاف مسلمان مزاحمت اختیار کریں

رشیدالدین
ہر گمان اور اندازے کا درست ہونا ضروری نہیں ہے۔ خاص طور پر سیاست کے میدان میں اکثر اندازے غلط ثابت ہوتے ہیں۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران نریندر مودی نے راہول گاندھی کے بارے میں جو رائے قائم کی تھی وہ تیسری میعاد میں غلط ثابت ہوئی۔ مشکلات اور چیالنجس کے ایندھن نے راہول گاندھی کو کندن بنادیا ہے۔ راہول گاندھی اب وہ نہیں رہے جنھیں امول بے بی، پپو اور شہزادہ کہا جاتا تھا۔ عوام کی مشکلات اور مصائب کے مشاہدے نے اُنھیں ایک تجربہ کار سیاستداں بنادیا ہے۔ تیسرے میعاد میں وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد نریندر مودی نے سمجھا کہ اُن کا سامنا ایک کم تجربہ کے حامل اپوزیشن لیڈر سے ہوگا لیکن لوک سبھا میں راہول گاندھی نے اپنے پہلے مظاہرے کے ذریعہ ہندوستانیوں کا دل جیت لیا اور ہر کسی کے دل میں جگہ بنالی۔ لوک سبھا نتائج اور حکومت کی تشکیل کے بعد پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس نریندر مودی اور اُن کی حکومت پر بھاری پڑگیا۔ مودی اور اُن کے حلیف تو کیا خود انڈیا الائنس کے پارٹنرس کو بھی راہول گاندھی کے غیرمعمولی مظاہرے کا اندازہ نہیں تھا۔ راہول گاندھی نے ملک کو درپیش مسائل پر تسلسل کے ساتھ جارحانہ انداز میں حکومت کو دفاعی موقف میں ڈال دیا۔ مودی اور اُن کے ساتھی راہول کے مظاہرے پر ششدر رہ گئے۔ ظاہر ہے کہ نہرو، اندرا اور راجیو گاندھی کے سیاسی وارث میں اجداد کی صلاحیتوں کا کچھ تو اثر ضرور منتقل ہوتا ہے۔ ویسے بھی عوامی فیصلے نے راہول گاندھی کے حوصلے کو بڑھانے کا کام کیا ہے۔ لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی اکثریت سے محروم ہوگئی اور انڈیا الائنس کو فیصلہ کن موقف حاصل ہوا۔ نتائج دراصل بی جے پی کی اخلاقی شکست ہے اور عوام نے جن کو اقتدار کے حق سے محروم کردیا وہ کرسی پر فائز ہوگئے جو عوامی فیصلے کی توہین کے مترادف ہے۔ لوک سبھا کا اجلاس نومنتخب ارکان کی حلف برداری اور صدرجمہوریہ کے خطبہ اور اُس پر مباحث تک محدود تھا لیکن مختصر سیشن میں راہول گاندھی نے اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ سیشن کو یادگار بنادیا۔ لوک سبھا کا یہ اجلاس حکومت کیلئے آئندہ خطرہ کی گھنٹی ہے۔ سیشن کے دوران اپوزیشن انڈیا الائنس کے حوصلے بلند تھے جبکہ بی جے پی کے حلیف مودی کی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ راہول گاندھی نے ملک کے سلگتے مسائل اور حکومت کی ناکامیوں کو دُنیا کے سامنے پیش کیا۔ اُنھوں نے کرسیٔ صدارت یعنی اسپیکر اوم برلا کو عہدہ کے وقار اور بالادستی کی یاد دلائی۔ سیاسی مبصرین نے راہول گاندھی کی جانب سے قرآنی آیت اور اسلام کی تعلیمات کا حوالہ دینے کو سراہا۔ اُن کا کہنا ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں مسلمانوں نے انڈیا الائنس کی جس طرح کھل کر تائید کی، راہول گاندھی نے اپنی تقریر کے ذریعہ اظہار تشکر کیا ہے۔ کانگریس قائد نے تمام مذاہب کی تعلیمات کے مطالعہ کا ثبوت دیا اور مودی حکومت کو درس دیا کہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ لگانا عمل کے بغیر دکھاوا ہے۔ راہول گاندھی نے ہر مرحلہ پر مودی حکومت کو لاجواب کردیا۔ لیڈر آف اپوزیشن کے طور پر پہلے مظاہرہ پر سیاسی مبصرین یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ مستقبل کا وزیراعظم تیار ہوچکا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے مباحث کا جواب دیتے ہوئے راہول اور کانگریس کو گھیرنے کی کوشش ضرور کی لیکن اُن میں جذبہ، اُمنگ اور حوصلے کی کمی صاف طور پر دکھائی دے رہی تھی۔ گزشتہ دو میعادوں میں اپنی جملہ بازی اور اداکاری سے اپوزیشن پر کنٹرول کرنے والے نریندر مودی اِس مرتبہ راہول گاندھی کے خوف کا شکار دکھائی دے رہے تھے۔ مودی کی تقریر ہمیشہ کی طرح ماہرین نے تیار کی لیکن وہ جملے تو ادا کررہے تھے لیکن الفاظ کی ادائیگی دل سے نہیں محض زبان سے تھی۔ اجلاس کی خاص بات یہ رہی کہ بی جے پی کی حلیف جماعتوں نے راہول گاندھی پر تنقید کے دوران بی جے پی کا ساتھ نہیں دیا جو آنے والے دنوں میں سیاسی تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے۔ الغرض لوک سبھا اور راجیہ سبھا کا پہلا اجلاس حکومت پر بھاری پڑگیا۔ لوک سبھا میں راہول گاندھی اور راجیہ سبھا میں ملکارجن کھرگے کی گھن گرج سے گونج اُٹھا۔
لوک سبھا نتائج میں اکثریت سے محرومی کے بعد نریندر مودی کو دستور کے احترام اور اُس کی پاسداری کا خیال ستانے لگا ہے۔ اپوزیشن انڈیا الائنس نے انتخابی مہم دستور، جمہوریت اور سیکولرازم کے تحفظ کے نام پر چلائی تھی اور ملک کے رائے دہندوں نے اِس نعرے کو قبول کیا۔ اب جبکہ رائے دہندوں کے رجحان کا بی جے پی کو اندازہ ہوچکا ہے لہذا اچانک موقف تبدیل کرتے ہوئے دستور کے تحفظ کا دعویٰ کیا جانے لگا۔ انتخابی مہم کے دوران نفرت، تعصب اور فرقہ پرستی کا ننگا ناچ دیکھنے کو ملا اور خود وزیراعظم نریندر مودی کی زبان سے مسلمانوں کے خلاف غیر پارلیمانی الفاظ کا استعمال کیا گیا۔ دستور میں تبدیلی کی باتیں گزشتہ کئی برسوں سے کی جارہی ہیں۔ آر ایس ایس جو بنیادی طور پر موجودہ دستور کی مخالف ہے، اُس نے 2025 ء میں اپنے قیام کے 100 سال کی تکمیل کے موقع پر دستور میں لفظ ہندو راشٹر کے اضافہ کا منصوبہ بنایا تھا۔ عوام نے اقتدار تو دیا لیکن بیساکھیوں کے سہارے۔ اب جبکہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو یقین ہوچکا ہے کہ اقتدار کی برقراری آسان نہیں ہے لہذا اچانک دستور کے احترام اور اُس کے تحفظ کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ رام مندر پر کانگریس کا بابری تالا، مسلم خواتین کو زیادہ بچے پیدا کرنے والے، مسلمانوں کو درانداز، الغرض انتخابی مہم میں فرقہ پرستی کا زہر گھولتے ہوئے ہندو ووٹ بینک کو متحد کرنے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ جن بیساکھیوں کے سہارے مودی حکومت قائم ہوئی ہے وہ دیرپا ثابت نہیں ہوسکتی۔ ملک میں پھر ایک بار مخلوط سیاست کا دور شروع ہوچکا ہے۔ نریندر مودی ہرگز دعویٰ نہیں کرسکتے کہ وہ 5 سال تک وزیراعظم کے عہدہ پر برقرار رہیں گے۔ ایک طرف پارٹی میں داخلی کشاکش تو دوسری طرف حلیف پارٹیوں کے مطالبات ہمیشہ تعاقب کرتے رہیں گے۔ تیسری میعاد میں اکثریت سے محرومی کے باوجود مسلمانوں کے خلاف حملوں اور مظالم کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں ماب لنچنگ کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں سے لوک سبھا چناؤ میں انڈیا الائنس کی تائید کا بدلہ لے رہی ہیں۔ اگر مسلمان متحدہ طور پر رائے دہی نہ کرتے تو شاید انڈیا الائنس کو اِس قدر کامیابی نہ ملتی۔ مسلمانوں کو اُمید تھی کہ الیکشن کے بعد نفرت، تعصب اور ظلم کے واقعات میں کمی آئے گی لیکن اپوزیشن اتحاد نے فرقہ پرست طاقتوں پر قابو پانے کیلئے اپنا رول اس طرح ادا نہیں کیا جس طرح کہ اُن سے توقع کی جارہی ہے۔ اترپردیش میں مسلمانوں نے بی ایس پی کا عملاً صفایا کردیا جو ہمیشہ بی جے پی کی کامیابی میں اہم رول ادا کررہی تھی۔ آخرکار مایاوتی کو کہنا پڑا کہ وہ آئندہ مسلمانوں کو ٹکٹ دینے کے بارے میں ایک سے زاید مرتبہ غور کریں گی۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے غرور اور تکبر کو مسلمانوں نے اس طرح ڈھیر کردیا جس طرح یوگی نے بلڈوزر کے ذریعہ مسلمانوں کے گھروں کو ڈھیر کیا تھا۔ اترپردیش میں اکھلیش یادو سے مسلمانوں کو اُمید ہے کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں پر لگام لگانے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے۔ اُمید کی جارہی ہے کہ آئندہ اسمبلی چناؤ میں اترپردیش میں اقتدار کی تبدیلی ہوگی۔ راہول گاندھی نے رائے بریلی کی نشست برقرار رکھتے ہوئے اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں اہم رول کا اشارہ دیا ہے۔ ایودھیا کی سرزمین کے لوک سبھا حلقہ فیض آباد میں سماج وادی پارٹی کی کامیابی ہندوتوا طاقتوں کو خود ہندوؤں کی جانب سے مسترد کرنے کا واضح ثبوت ہے۔ دوسری طرف لوک سبھا نتائج سے مسلمانوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ صرف انتخابات میں مخصوص پارٹی یا امیدوار کے حق میں ووٹ دینا ذمہ داری کی تکمیل نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جس پارٹی اور امیدوار کو کامیاب بنایا اُسے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد پر مجبور کیا جائے۔ اگر ووٹ دینا ہی اپنی ذمہ داری سمجھ کر خاموش ہوجائیں گے تو 5 سال تک مسائل جوں کے توں اور مظالم کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ملک میں بی جے پی کی سیاسی طاقت میں کمی کے باوجود مسلمانوں میں مزاحمت کا جذبہ پیدا نہیں ہوا ہے۔ ماب لنچنگ اور حملوں کے واقعات کے انسداد کیلئے نظم و نسق اور حکومتوں پر تکیہ کرنے کے بجائے مسلمان جذبہ مزاحمت کو فروغ دیں۔ دستور ہند نے بھی ہر شخص کو اپنی مزاحمت کا حق دیا ہے۔ کب تک آخر ظلم اور تشدد کا نشانہ بنتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ ملک میں مسلم قیادتیں چاہے وہ سیاسی ہوں کہ مذہبی اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہوچکی ہیں۔ وہ دور اب نہیں رہنا جب مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم کی اپیل پر حکومتوں کی بنیادیں ہل جاتی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ قیادتوں کے اثر میں کمی کیلئے خود قائدین ذمہ دار ہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے اپنے علاقوں کی سطح پر فرقہ پرست طاقتوں سے مقابلے کی حکمت عملی تیار کریں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
ناز اتنا نہ کریں ہم کو ستانے والے
اور بھی دورِ فلک ہیں ابھی آنے والے