دانیال گھر میں سب سے چھوٹا تھا ۔ وہ ہر وقت اپنے ماں باپ سے مہنگی چیزوں کی فرمائش کیا کرتا تھا ۔ اس کے والدین کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کسی نا کسی طرح اس کی فرمائش کو پورا کردیں ۔ دانیال کے والد کسی فیکٹری میں ملازمت کرتے تھے ، تاہم ان کی تنخواہ اتنی اچھی نہیں تھی ۔ قلیل تنخواہ کی وجہ سے ان کا گزارہ مشکل سے ہورہا تھا ۔
ایسے میں جب دانیال کی فرمائشیں ان کے سامنے آتیں تو وہ دُکھی ہوجاتے تھے ۔ ایک دن دانیال جب اسکول سے واپس آیا تو اس نے نئے جوتے کی فرمائش کردی ۔ اس کے ابو نے دو دن کے بعد اسے نئے جوتے لا کر دیئے ۔ جوتے دیکھ کر دانیال کو غصہ آگیا ۔ اس نے اپنی ماں سے کہا کہ اسے یہ سستے جوتے نہیں چاہئیں ، اسے تو مہنگے والے جوتے چاہئے تھے ۔ وہ غصہ کرتے ہوئے باہر کھیلنے کیلئے چلا گیا ۔ دانیال گھر کے قریب موجود بس اسٹاپ پر جاکر بیٹھ گیا ۔ وہ سوچنے لگا کہ اس کے ابو نے کتنے بے کار جوتے لاکر دیئے ہیں ، جبکہ اس کے دوستوں کے پاس کتنے اچھے جوتے ہیں ۔ ابھی وہ سوچ میں ہی گُم تھا کہ اچانک اس کے سامنے سے ایک بھکاری گزرا ۔ وہ بھکاری دو لکڑی کی اسٹاک کے سہارا چل رہا تھا کیونکہ اس کی دونوں ٹانگیں گھٹنوں کے پاس سے نہیں تھیں ۔ دانیال نے یہ منظر دیکھا تو فوراً اس کے دل میں یہی خیال آیا کہ اس کے پاس پہننے کیلئے اچھے جوتے نہیں ہیں تو کیا ہوا ، اس کے پاس کم از کم دونوں ٹانگیں تو ہیں ، جن کی مدد سے وہ بھاگ سکتا ہے ، دوڑ سکتا ہے اور گیمز کھیل سکتا ہے ۔ اس نے فوراً ناشکری سے توبہ کی اور خوشی خوشی گھر واپس چل دیا ۔ پیارے بچو ! انسان کو اپنے پاس موجود چیزوں پر خدا کا شکر ادا کرناچ اہئے ۔ جو چیزیں آپ کے پاس نہیں ہیں ، ان پر چلنے کڑھنے کے بجائے جو چیزیں آپ کے پاس ہیں ان پر اللہ کا شکر ادا کرلیا جائے تو آپ کی زندگی بہترین ہوسکتی ہے ۔