پی چدمبرم
دہلی سے باہر بھی ایک ہندوستان ہے ہریانہ۔ دہلی سرحد پر سنگھو، اسٹاک مارکٹس، ریزروبینک آف انڈیا اور ٹی وی چیانلس یہی حقیقی ہندوستان ہے۔ ایسا ہندوستان جس کی آبادی حقیقی لوگوں پر مشتمل ہے جو فیکٹریوں، کھیتوں، گھروں میں اور سڑکوں پر ہر روز جسمانی طور پر محنت کرتے ہیں اور یہ محنت جسم اور روح کو یکجا رکھنے کے لئے کرتے ہیں۔ دوسرے انسانوں کی طرح یہ کھاتے پیتے ہیں، سوتے ہیں، پیار و محبت کرتے ہیں، شادیاں رچاتے ہیں، بچے پیدا کرتے ہیں، ہنستے ہیں روتے ہیں اور مرتے ہیں اور ان میں سے بہت بڑی تعداد زندگی بھر جدوجہد بھی کرتی ہے۔ یہ غربت اور بے روزگاری سے ہر دن جوجتی ہے۔ یہ دو الفاظ غربت اور بے روزگاری، غریب، متوسط آمدنی کے حامل اور انتہائی ترقی یافتہ ممالک کو ایک دوسرے سے الگ کرتے ہیں۔ جہاں تک ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا سوال ہے ان ملکوں کا واحد مقصد غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ اگر آپ دیکھیں تو ہندوستانی عوام کے ایک بڑے حصہ کو غریب یا خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے قرار دیا گیا اور ایسے ہندوستانیوں کی تعداد 28 فیصد ہے (یو این ڈی پی)۔ پچھلے اعداد و شمار تک ہمارے ملک میں بے روزگاری کی شرح 9.9 فیصد تھی (سی ایم آئی ای، 13 دسمبر 2020 تک)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا حکومتیں چاہے وہ مرکزی ہوں یا ریاستی وہ ان غریب ہندوستانیوں کی پرواہ کرتی ہیں یا نہیں۔ میرے خیال میں یو پی اے حکومت (2004 تا 2014) کا سب سے اہم کارنامہ یہ رہا کہ اُس نے 270 ملین ہندوستانیوں کو خط غربت سے باہر نکالا، جبکہ دیگر جو اقدامات کئے گئے اور جن پروگرامس کا آغاز کیا گیا اب بھی اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں میں آپ کو جولائی 1991 میں مارکٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ کی راہ روکنے والے دو مرحلوں پر مشتمل اقدام یاددلانا چاہتا ہوں اور آج وہی مارکٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ ایک معمول کے طور پر لیا جارہا ہے اور اسے ایک اہم سنگ میل یا غیر معمولی اصلاحات میں سے ایک قرار دیا جارہا ہے اور اس پر بمشکل کسی کو اعتراض ہے۔ آخری مرتبہ ایسے جامع قومی غذائیت سروے (سی این این ایس، 2016۔ 2018) مشترکہ طور پر وزارت صحت و خاندانی بہبود اور یونیسیف نے کیا تھا اور اس کے بعد جو حقائق منظر عام پر آئے وہ تشویش ناک تھے۔ اس مشترکہ سروے میں یہ دیکھا گیا کہ صفر تا 59 ماہ کی عمر کے بچوں میں 35 فیصد ٹھٹھر گئے تھے، 17 فیصد لاغر پن کا شکار ہوئے، 33 فیصد ایسے بچے تھے جن کا وزن عمر کے لحاظ سے بہت کم تھا۔ 11 فیصد حقیقی طور پر ناقص غذا کا شکار تھے۔ دوسری طرف خون کی کمی کا شکار بچوں کی تعداد 41 فیصد تھی۔ اسی طرح 5 تا 9 سال عمر کے بچوں میں 22 فیصد بچے ٹھٹھر گئے تھے۔ ان میں عمر کے لحاظ سے جو وزن رہنا چاہئے تھا وہ نہیں تھا اس زمرہ میں 10 فیصد بچے نظر آئے، جبکہ خون کی کمی کا شکار بچوں کی تعداد 21 فیصد رہی۔ اسی طرح دبلے پن کا شکار بچوں کے معاملہ میں 5 تا 9 سال عمر کے بچوں میں 23 فیصد بچے دبلے پن کا شکار پائے گئے، اسی طرح 10 تا 19 سال عمر کے 24 فیصد بچے دبلے پن کا شکار تھے۔ جہاں تک ناقص غذا کے طبی اثرات کا سوال ہے اس کے کئی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لبلبہ، جگر پر اثر پڑتا ہے، اس طرح کے بچے امراض جگر کے ساتھ تھائیرائیڈ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کا مدافعتی نظام خراب ہو جاتا ہے۔ معقول غذائیت سے محروم بچے اور سن بلوغ کو پہنچنے والے لڑکے لڑکیوں کے نمو کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے (بلیک 2013)
غذائیت کیوں؟
ٹھٹھر جانا اور لاغر پن دراصل غذائیت کی شدید کمی کی علامتیں ہیں جو ایک طویل مدت سے مناسب و مقوی غذا سے محرومی کے نتیجہ میں منظر عام پر آتی ہے اور جہاں تک لاغر پن کا سوال ہے غذا وقت پر استعمال نہ کرنے یعنی وقت پر کھانے پینے سے گریز کرنے اور مناسب انداز میں غذائیت سے بھرپور غذا استعمال نہ کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی کے ابتدائی ہزار ایام انتہائی اہم سمجھے جاتے ہیں اور یہ دن اس کی بہتر نمو کے لئے کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر ان ایام میں اسے اچھی غذا ملے تب وہ ناقص غذائیت کے منفی اثرات سے زندگی بھر محفوظ رہتا ہے ورنہ کئی نقائص زندگی بھر اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ٹھٹھر جانے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان اور اترپردیش (37 تا 42 فیصد) میں پائی جاتی ہے اور کم تعداد گوا اور جموں و کشمیر میں دیکھی جاتی ہے۔ ناقص غذا کا شکار بچے جو ٹھٹھر جاتے ہیں ان کی تعداد شہری علاقوں کی بہ نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے اور غریب خاندان کے بچوں میں یہ کیفیت پائی جاتی ہے اور درج فہرست طبقات و قبائل سے تعلق رکھنے والے بچوں کے زیادہ تر ناقص غذا کا شکار ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ اگر اس قسم کے بچوں کے حالت کا جائزہ لینا ہو تو پھر سی این این ایس کے ساتھ ساتھ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے
(NFHS, NFHS-4)
کا مطالعہ کیجئے۔ یہ سروے 2015-16 میں کئے گئے اور
NFHS-5،
2019-20 میں کیا گیا۔ چند دن قبل ہی حکومت نے حقائق پر مبنی ایک شیٹ جاری کی۔
NFHS-4
اور
NFHS-5
کے درمیان انتہائی شدید و خطرناک ناقص غذا کے شکار بچے صحت کے اعتبار سے بہت ہی سنگین حالات میں پائے گئے۔ امبیڈکر یونیورسٹی کے اسکول آف لبرل اسٹیڈیز کی مس دیپا سنہا کا ایک مضمون انگریزی روزنامہ ہندو کی 15 دسمبر 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا، وہ لکھتی ہیں کہ سال 2015-16 تا 2019-20 کے دوران ملک میں کم عمر بچوں کے ٹھٹھر جانے کے رجحان میں اضافہ دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں عالمی ادارہ صحت (WHO)
کا حوالہ دیا جس کا کہنا ہیکہ بچوں کا ٹھٹھر جانا یا ان کا نمو رک جانا دراصل فروغ انسانیت کے معاملہ میں عدم مساوات کی ایک علامت ہے۔ 2019 میں فروغ انسانی وسائل کی درجہ بندی میں ہندوستان کا درجہ گرا ہے۔ اگرچہ مرکزی و ریاستی حکومتوں نے آئی سی ڈی ایس، مڈ ڈے میل اسکیم اور سوشل ابھیان شروع کئے ہیں لیکن ان میں بہت زیادہ نقائص پائے جاتے ہیں۔ یہ اسکیمات یا پروگرامس ایسا لگتا ہے کہ ناکام ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں ستمبر 2020 میں گیہوں اور چاول کا اسٹاک بالترتیب 478 ایل این ٹی اور 222 ایل این ٹی تھا جبکہ 109 ایل این ٹی ایسی فصل بھی تھی جو ملز کو نہیں بھیجی گئی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کسان اشیائے مایحتاج یا اناج کے پہاڑ ٹھہرادیتے ہیں۔ ایف سی آئی اور دیگر سرکاری ایجنسیاں اس اناج کو بڑے پیمانے پر خریدتی ہیں۔ ٹیکس ادا کرنے والے ہندوستانی بڑی خوشی سے اناج کی خریدی اور اسے محفوظ رکھنے کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے بچوں کو کھانے کے لئے مناسب مقدار میں کھانا نہیں ملتا۔ میں نے جتنے بھی نکات سطور بالا میں پیش کئے ہیں اس پر حیرت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ حکومت میں شامل چند لوگ اور موجودہ مرکزی حکومت کا کوئی بھی فرد ان سنگین مسائل پر بات نہیں کرتا۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ نوٹ بندی کے بعد ملک کی معیشت میں سست روی کا آغاز ہوا۔ پھر کورونا وائرس وباء نے تباہی مچائی، لوگ روزگار سے محروم ہوئے، نوکریاں چلی گئیں، گھر بار سے بھی محروم ہونا پڑا اور سامان زندگی بھی اتھل پتھل ہوکر رہ گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی اور سہ ماہی 1 اور سہ ماہی 2 سال 2020-21 میں ہمارے بچوں کی غذائیت پر بہت بڑا اثر ڈالا ہے۔ ناقص غذا کا شکار بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں ہم آپ کو سابق امریکی صدر ہیری ٹرومیان کا وہ قول یاددلاتے ہیں جو انہوں نے اپنے صدارتی میز پر لکھ رکھا تھا اور وہ قول “The Buck Stops Here” تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ صدر بھی فیصلے لیتے ہیں اور ان فیصلوں کے جو بھی نتائج برآمد ہوتے ہیں اس کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے بچوں کی ناقص صحت اور اس کے نتیجہ میں ان کے رکنے والے نمو کی کوئی ذمہ داری لینا والا نہیں۔