نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

   

ایڈوکیٹ عثمان شہید

بلبل ہند ڈاکٹر اقبالؒ نے ترانہ ہندرقم طراز کرتے ہوئے کیا خوب کہا ؎
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
واقعی گلستانِ ہند انواع و اقسام کے پھولوں سے لدا پڑا ہے۔ جن کی خوشبو سے یہ باغ معطر ہے۔ان کی عطرمیز ہوائوں سے ماحول خوشگوار ہے۔ بلبلوں کے نالے ، کوئلوں کے گیت، مینائوں کی صدائیں، چڑیوں کی چہچہاہٹ ، جانوروں کی آوازیں، دردندوں کی پکار، ندیوں کا وجود، جن کے دم سے رشک جناں ہمارا ۔ سربافلک ہمالیہ کا وجود ، گنگا کی لہریں، جمنا کی موجیں،سرسوتی کا تقدس، قطب مینار کی بلندی، تاج محل کی خوبصورتی، مسجد کی اذانیں، مندروں کے گھنٹے، گرجاگھروں کے کیواڑ، سکھوں کے گیت غرض کیا نہیں ہے ہمارے خزانے میں۔ ہندو مسلم ، سکھ ، عیسائی، یہودی، پارسی، کو ن ہے جو شجر ہند سے وابستہ نہیں ہے۔بتائو کس کے عمل یہاں نہیں گڑھی ہے۔کون ہے جو ہمارے درختوں کی چھائوں میں آرام نہیں کررہا ہے۔ اپنی بھوک نہیں مٹا رہا ہے۔ ہماری ملوں کے کپڑوں سے تن نہیں ڈھانک رہا ہے۔ بحرالکاہل، بحرہند، خلیج بنگال کی موجیں ہمارے تن کو غسل دے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی عظیم الشان تاریخ بھی ہے جس کے اوراق ہیروں کی طرح جگمگارہے ہیں۔
ہیون سانگ نے ہندوستان کے محلوں کی خاک چھان کر تاریخ لکھی۔ ایک اور مورخ تاراچند نے اپنی عظیم تصنیف میں ہندوستان کو جنت نشان قرار دیا ہے۔ اس نے مسلم تہذیب کا بغور جائزہ لیا ہے اور اسلام کا ہندوستانی تہذیب پر اثر کے تعلق سے لکھتا ہے کہ اگرچہ کہ مسلمان تعداد میں کم ہے لیکن ان کی تہذیب ، ان کا کلچر ، ان کی زبان، ان کا رہن سہن اک نئی تہذیب کو جنم دیتا ہے اور ان کی زبان ایک نئی زبان کو جنم دیتی ہے اور ہندو مسلم اتحاد اٹوٹ ہے۔ تاریخ پڑھئیے ، لائبریریز جائیے، ان کو پڑھ کر معلوم ہوگا کہ ہندو راجاؤں نے بھی مسلمانوں پر ظلم نہیں کیا تھا۔ اُن کے مساجد کو نقصان نہیں پہنچایا۔ پنڈت نہرو نے بھی کتاب لکھی The incredable India ۔ تاریخ فرشتہ ،مسٹر برنی کی کتاب ’’تاریخ ہند‘‘ منشی تاراچند کی کتاب ،پروفیسر اوک کی کتاب، بابو رائوپاٹل کی کتابیں چھوڑ کر اور بہت ساری کتابیں ہیں جن کو پڑھ کر اس نتیجہ پر آپ پہنچ سکتے ہیں کہ ہندوستان کبھی فرقہ پرستی کے زہر سے متاثر تھااور فسادات سے اس کی کا اتحاد کمزور ہوا ، کسی مسلم بادشاہ نے ہندوئوں پر حملہ کیا ، کسی نے اُن کے کھیتوں کو جلایا، گھروں کو برباد، ان کی عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کیابلکہ اسلام تو کہتا ہے کہ لکم دینکم ولی دین، تمہارا دین تم کو ہمارا دین ہم کو مبارک اور کہا لااکرہ فی الدین ، دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ محمد بن قاسم نے جب 16 سال کی عمر میں سندھ کو فتح کیا تو اپنے پہلے خطبہ میں عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو کل تک جس عہدہ پر تھا وہ وہیں برقرار رہے گا ، کسی پجاری پر حملہ نہیں کیا۔ کسی مندر پر حملہ نہیں کیا۔ عوام پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی اپنے بابری مسجد کے کیس میں لکھا کہ ایسی کوئی شہادت ہم کو نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بابری مسجد مندر کو توڑ کر بنائی گئی یا یہ کہ رام یہاں پیدا ہوئے تھے لیکن اعتقاد کا مسئلہ ٹیڑھا ہے جس کی بنیاد پر الہ باد ہائی کورٹ نے اس کو رام چندرجی کی جائے پیدائش قرار دیا ہے ہم اس سے مجبور ہیں ۔
شہنشاہ بابر نے بھی کوئی ظلم نہیں کیا، فساد برپا نہیں کیا۔ وہ تو یہ کہتا رہا کہ’’ بابر باعیش کوش کے عالم دوبارہ نیست‘‘ اس نے شراب پینا بھی چھوڑ دیا اور افیون سے شغل کیا۔ شہنشاہ ہمایوں ، اکبر، جہانگیر ، شاہجہاںاور اورنگ زیب غرض مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی لیکن ایک بھی ہندو کا قتل نہیں کیا۔ آج بھی ایک بھی مندر کو مسمار نہیں کیا۔ اکبر نے تو راجا ٹوڈرمل کو وزیرفینانس بنایا۔ راجا مان سنگھ کو افواج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا۔ راجا بیربل کو نورتن میں شامل کیا۔رانی جودھا بائی کو اپنی ملکہ بنایا۔ کیوں مسلمانوں پر الزام ہے کہ وہ فرقہ پرست تھے یا ہیں۔جھوٹے افسانے، جھوٹی کہانیاں، جھوٹے فلم تیار کرکے فرقہ پرستی کو بی جے پی ہوا دے رہی ہے تاکہ اقتدار دوامی طور پر اس کے پاس آجائے۔
میر عثمان علی خان پر الزام ہے کہ انہوں نے رضا کاروں کی آڑ لے کر اپنی حکومت کو مضبوط کیا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ہندو مسلمان کو اپنی دو آنکھ قرار دیا تھا۔ گائو کشی پر امتناع عائد کردیا تھا۔ انہوں نے عثمانیہ دواخانہ ، ہائی کورٹ ، سٹی کالج، وکٹوریہ ہاسپٹل ، اعظم جاہی ملز،کاغذ نگر ، عثمانیہ یونیورسٹی، جامعہ نظامیہ وغیرہ اور بنارس ہندو یونیورسٹی کو 50 ہزار روپے کی امدادکی۔ چین کی جنگ میں 1962 میں ایسا سونا دیا جو دنیا نے کبھی نہیں دیکھا۔ بتائو کسی ہندو راجا نے ایسا چندہ دیا۔ میر عثمان علی خان نے 5 ٹن سونا دیا۔ جس سے ہتھیار خریدے گئے، اب کہتے ہو کہ وہ رضاکاروں کی سرپرستی کرتے تھے۔ رضاکار فلم بنائی جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ مسلمانوں نے ہندوئوں کا قتل عام کیا۔ پھانسی پر لٹکایا ، عورتوں کی بے عزتی کی۔ میں چیلینج کرتا ہوں کہ یہ الزام جھوٹے ہیں آج تک کسی اخبار یا کتاب میں نہیں لکھا گیا کہ رضاکاروں نے کچھ ایسا کیا تھا۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
ایسا لکھ کر اقبال ؒنے ثابت کردیا کہ ہم ہندوستانی شہری ہیں، ہندوستان سے بے حد پیار کرتے ہیں، ارے بلبن کے بیٹے نے تو ہلاکو کا ایسا مقابلہ کیا تھا کہ وہ ہندوستان چھوڑ کر چلا گیا۔ہندوستان کو ہم اپنا وطن سمجھتے ہیں ، بتائو ایک بھی مسلمان کو جس نے ملک کے راز غیر ملکیوں کو بیچا یا تین جنگیں ہوئیں جس میں ہم نے غداری کی۔ آج بھی ڈاکٹر ہندو ہے تو کمپونڈر مسلمان، وکیل مسلمان ہے تو اس کا منشی ہندو۔ انجینئر مسلمان ہے تو اس کے ساتھ ہندو بھی کام کررہے ہیں۔ ایک گائوں میں تو نوجوانوں نے بیل کو زندہ کنویں میں سے نکال دیا اور اس کی جان بچائی ، اسی طرح ایک اور گائوں میں مسلمانوں نے ایک اور بیل کو بچایا ،خون کا عطیہ دیا،یہ نہیں سوچا کہ مریض مسلمان ہے یا ہندو ۔ہم نے ہندوستان کو لوٹا نہیں اس کو سنوارا ہے۔