نامساعد حالات میں حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی تعلیمات مشعل راہ

   

شاہی مسجد باغ عامہ میں مولانا احسن بن محمد الحمومی کا خطاب
حیدرآباد، 7 ۔ اکتوبر (پریس نوٹ) مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی امام و خطیب شاہی مسجد باغ عامہ نے کہا کہ عالم اسلام میں مختلف ادوار میں عظیم شخصیات منصہ شہود پر آئیں۔ یہ وہ نامور شخصیتیں تھیں، جو علوم اسلامیہ میں ماہر تھے، جن کی دور اندیشی اور دین کی سمجھ بے مثال تھی۔ تابعین اور تبع تابعین کے بعد ان ممتاز شخصیتوں نے شاندار کارنامے انجام دئیے اور ان کا فیضان آج بھی جاری ہے۔ ان ہی عظیم شخصیتوں میں ایک ممتاز اور بے مثال شخصیت کا نام شیخ طریقت حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادرجیلانی ؒ ہے۔ جنھوں نے امت کے بے شمار افراد کی ظاہری وار باطنی اصلاح کی۔ حضرت پیران پیرؒ کی تربیت سے لاکھوں سالکین نے فائدہ اٹھایا۔ حضرت پیران پیرؒ نے امت مسلمہ کی زمینی سطح پر اصلاح کی اور آپؒ شیخ الاسلام والمسلمین تھے۔ امت مسلمہ کے چاروں فقہی مکاتب فکر میں بھی حضرت پیران پیرؒ کو امام کا درجہ حاصل ہے اور آپؒ کی شخصیت امت کے تمام طبقات میں ہردلعزیز رہی ہے۔مولاناا حسن الحمومی نے کہا کہ پانچویں صدی ہجری میں اسلامی دنیا بڑے انتشار، افراتفری اور الجھن کے ماحول سے گذر رہی تھی۔ یہ دور سماجی، سیاسی، مذہبی اور ا اخلاقی بدعنوانی کا تھا۔دین دار خلفاء کا سنہرادور اختتام پذیر ہو گیا تھا اور نہایت ہی کمزور اور نا اہل خلفاء کا دور شروع ہو چکا تھا جو عیش و عشرت کی طرز زندگی کے غلام ہو چکے تھے۔ اس پر آشوب زمانے میں حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الگیلانی ہی تھے جو باطنیوں، فدائیوں، اعتزالی فلسفہ اور دیگر گمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ کا رد فرمایا۔ بذریعہ اپنے روحانی تصرفات مدرسہ اور خانقاہی نظام کو بام عروج پر پہنچا کر شریعت اور طریقت کا صحیح و قابل عمل راستہ دکھایا اور لوگوں کے نفوس و قلوب کے تزکیہ کے ذریعہ دین اسلام میں پھر سے ایک نئی جان ڈالی۔علامہ ابن تیمیہؒ نے فرمایا کہ میں نے کئی آئمہ، شیوخ اور بزرگان دین کے بارے میں سنا ہے لیکن حضرت پیران پیرؒ کی جتنا کرامات اور خدمات ہیں، اتنا تو کسی اور کے بارے میں بھی نہیں سنا۔ لیکن آج امت مسلمہ میں حضرت پیران پیرؒ کی شخصیت کو مختلف خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جب کہ آپؒ کی شخصیت عالمگیر تھی۔ آپؒ ولایت کے اعلی درجہ پر فائز تھے۔ آپ کی تعلیمات آج بھی امت مسلمہ کے ہر فرد کے لیے قابل عمل اور فائدہ مند ہیں۔ آپؒ ایک مدرسہ کے بانی، مدرس، عوام کے بے انتہا ہمدرد، رہبر و مصلح بھی تھے۔ آپؒ نے اپنے ماننے والے محبین کو دس باتوں کی خاص نصیحت کی ہے اور اس کا موجود ہونا ایک قادری کے لیے ضروری ہے۔ حضرت پیران پیرؒ نے پہلی نصیحت کی کہ کبھی بھی اللہ کی قسم کہنا چھوڑ دیں۔ دوسری نصیحت کی کہ کسی بھی حال میں جھوٹ نہ بولیں۔ وہ چاہے مذاق میں ہو یا کسی حساس معاملہ میں ہو، کسی بھی صورت میں جھوٹ نہ بولیں۔ آپؒ نے تیسری نصیحت یہ کی کہ اس بات کا وعدہ ہی نہ کریں، جس کو پورا نہ کرسکیں۔ یعنی وہی وعدہ کرو، جس کو تم مکمل کروں۔ چوتھی نصیحت کی کہ کسی پر بھی (نہ کسی انسان کے لیے اور نہ جانور کے لیے) لعنت نہ کروں۔ پانچویں نصیحت یہ ہے کہ کسی کو بھی بددعا نہ دوں۔ یہ اللہ والوں کا طریقہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے لیے بددعا کریں۔ چھٹی چیز یہ ہے کہ اہل قبلہ (مسلمانوں) میں سے کسی کو منافق، کافر یا مشرک نہ کہو، اس کا اختیار تو صرف اللہ کو ہے۔ ساتویں نصیحت یہ ہے کہ تم گناہ کی طرف نظر بھی اٹھا کر نہ دیکھو۔ آٹھویں نصیحت کی کہ اپنا کام خود کروں، اپنا کام کسی اور سے نہ کراوں، خود دوسروں کے کام آؤ۔ نویں نصیحت یہ کہ انسانوں سے بے نیاز ہوجائیں۔ یہی اصل عزت ہے، تمام تر امید اور نگاہ اللہ پر ہو۔ دسویں نصیحت کی کہ تواضع اختیار کریں۔ تواضع ہی ایک ایسی چیز ہے، جس سے عابد کا محل تیار ہوتا ہے اور یہ تواضع ہی ہے، جس سے عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے خود اپنی اولاد کی بھی اسی بنیاد پر تربیت کی۔ آپ نے اپنے اولاد یحییٰ بن عبدالقادر اور دیگر فرزندان کو اس زمانے کے بزرگان دین کی خدمات کے لے متعین کیا۔ یہ اعلی اقدار پر مبنی اہم باتیں ہیں، جس سے ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔