پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
دستور ہند کے دفعہ 168 کا ان الفاظ سے آغاز ہوتا ہے کہ ’’ہر ریاست کیلئے ایک مقننہ ہونا چاہئے جو گورنر اور دو ایوانوں یا ایک ایوان پر مشتمل ہونا چاہئے ‘‘۔ میرا ہمیشہ یہی خیال رہا ہے کہ ریاستی مقننہ میں گورنر کی موجودگی بے فیض ہی رہی ہے ۔ ایک غیر منتخب عہدیدار کو اس ایوان کا رکن کیوں رہنا چاہئے جو عوامی منتخبہ نمائندوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ جو روایتی فرائض ہیں جیسے ایوان یا دونوں ایوانوں سے خطاب یا دوسرے نام نہاد مقننہ کام کاج کو ( دفعہ 202 سے 207 تک ) گورنر کے ریاستی مقننہ کا حصہ رہے بغیر بھی پورا کیا جاسکتا ہے ۔ جیسا کہ انگلینڈ کے بادشاہ کرتے ہیں۔
ریاست کے مقننہ شعبہ میں گورنر کا حقیقی رول یہی ہے کہ وہ بلوں کو منظوری دیں۔ کسی بل کے قانون کی شکل میں تبدیل ہونے سے قبل مقننہ کے عمل کی تکمیل واقعتا ایک اہمیت کا حامل کام ہے ۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے مقننہ نے دستوری حدود میں تجاوز نہیں کیا ہے ۔ یہ ضروری ہے کہ منظوری دینے کا نہ دینے کا اختیار کسی ایک فرد کے سپرد کیا جائے ۔
جانچ کی جائے ۔ روکا نہ جائے
دستور کے دفعہ 200 میں کچھ اس طرح ہے
’’ جب کسی ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی جانب سے کوئی بل منظور کیا جاتا ہے تو اس کو گورنر کو پیش کیا جائے اور گورنر کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اس بل کو منظوری دیتے ہیں یا یہ کہ وہ اس کی منظوری کو روک دیتے ہیں۔ یا پھر وہ اس کو صدر جمہوریہ کے جائزہ کیلئے محفوظ کردیتے ہیں ‘‘ ۔ دفعہ 200 کے ضابطے میں یہ کہا گیا ہے کہ گورنر جلد از جلد بل کو مقننہ کو واپس بھیج دیں تاکہ وہ اس بل پر از سر نو غور کرے یا پھر کوئی مخصوص دفعات کا جائزہ لے یا پھر ایسی کوئی بھی ترمیم متعارف کروانے کی خواہش کی جائے جس کی وہ تجویز کرسکتے ہیں۔ یہ مقننہ کیلئے ایک صحتمند جانچ ہے تاہم قانون سازی کے عمل کو تباہ کرنے کا لائسنس نہیں ہے ۔
گورنرس اور خاص طور پر اپوزیشن کے اقتدار والی ریاستوں میں گورنر ان کو دئے گئے اختیارات کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ دفعہ 200 کے تحت وہ فرض کرتے ہیں کہ ان کی جانچ پڑتال کا اختیار در اصل قانون سازی کو روکنے کا لائسنس ہے ۔ لہذا انہوں نے طویل خاموشی کا طریقہ اختیار کرلیا ہے ۔ یہ صرف وقت ضائع کرنا ہے ۔ بہ الفاظ دیگر نہ تو منظوری دینا ہے اور نہ ہی منظوری سے انکار کرنا ہے اور بل کو دوبارہ غور کرنے مقننہ کو واپس بھی نہیں کرنا ہے اور نہ ہی اس بل کو صدر جمہوریہ کی منظوری کیلئے محفوظ کرنا ہوتا ہے ۔ یہ طریقہ کار در اصل نامناسب بدنیتی ہے یہ طریقہ کار عوامی خواہش ‘ جسے مقننہ نے بل کی منظوری کی شکل میں ظاہر کیا ہے کو ناکام بنانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس طرح کے طریقہ کار کی دستور میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے اس معاملہ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جب کوئی بل منظوری کیلئے گورنر کو پیش کیا جائے تو وہ یا تو اسے منظوری دیں یا منظوری سے انکار کردیں اور بل کو نظرثانی کیلئے مقننہ کو دوبارہ واپس بھیج دیا جائے یا پھر اسے صدر جمہوریہ کی منظوری کیلئے محفوظ کیا جائے ۔ بنچ نے اس پر طویل خاموشی کو غیرقانونی قرار دیا ہے ۔ پانچ ججس کی بنچ نے ان نتائج کی توثیق بھی کی ہے ۔ ایسے کچھ نکات بھی ہیں جن پر دونوں بنچس میں اختلاف رائے ہے لیکن یہ دونوں ہی نکات عام آدمی کی تشویش سے متعلق نہیں ہیں۔ ہم ان کو قانونی ماہرین کیلئے چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ ان نکات پر مباحث کریں۔
عام شہریوں کی فکر و تشویش
عام شہریوں کیلئے جو سب سے زیادہ تشویش کا نکتہ ہے وہ دونوں بنچس کے مابین اختلاف رائے کا بڑا نکتہ ہے کہ گورنر کیلئے بل پر کارروائی کرنے وقت کی حد مقرر کی جائے ۔ دو رکنی بنچ نے سخت گیر وقت کی حد مقرر کی تھی جبکہ پانچ رکنی بنچ نے اس کو قبول نہ کرتے ہوئے مسترد کردیا ہے ۔ پانچ رکنی بنچ نے دستور کی رو کو پیش نظر رکھا ہے جس میں کوئی مقررہ وقت کی حد کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے ۔ پانچ رکنی بنچ نے دستوری حکام کیلئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں لچک پر زور دیا ہے ۔ متنوع سیاق و سباق اور حالات اور توازن برقرار رکھنے کی ضرورت وہ قانون سازی کے عمل میں سامنے آسکتی ہے ۔ تاہم سپریم کورٹ کو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے اس انتباہ کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ دستور ساز اسمبلی میں اپنی اختتامی تقریر میں ڈاکٹر امبیڈکر نے انسانی کمزوریوں کی عکاسی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ آئین کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو ‘ اس کا برا ثابت ہونا یقینی ہے کیونکہ جن لوگوں کو اس پر عمل کی ذمہ داری دی جاتی ہے وہ برے ہوتے ہیں ۔ دستور کتنا ہی برا کیوں نہ ہو وہ اچھا ثابت ہوسکتا ہے اگر وہ لوگ جنہیں اس پر عمل کرنا ہوتا ہے وہ بہت اچھے ہوں ‘‘ ۔
میں اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ یہ لوگ جو اس وقت گورنر کے عہدوں پر فائز ہیں وہ اچھے زمرہ میں نہیں آتے ۔ وہ لوگ کیا ہیں اس کا فیصلہ قارئین کریں۔ وہ لوگ کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے وہ سب کچھ ہندوستانی عوام کے سامنے ہے ۔ جب کوئی بل کسی منتخبہ مقننہ کی جانب سے منظور کی جاتا ہے اسے کئی مہینوں بلکہ برسوں تک کیلئے روکا جائے تو دستور پر عمل نہیں ہو رہا ہے بلکہ اسے برباد کیا جا رہا ہے ۔ عوام کی خواہشات کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ سپریم کورٹ کے سامنے گورنرس کی بے شمار مثالیں موجود تھیں ۔ ( خاص طور پر اپوزیشن کے اقتدار والی ریاستوں جیسے جھارکھنڈ ‘ کرناٹک ‘ کیرالا ‘ پنجاب ‘ ٹاملناڈو اور مغربی بنگال کی ) جنہوں نے دستوری توازن کو مقننہ کے خلاف موڑ دیا تھا ۔ پانچ ججس کی بنچ سے توقع کی تھی کہ وہ کامل اختیار کے ساتھ توازن کو بحال کرے ۔ اس نے تجزیہ میں بہت عمدہ کام کیا ہے لیکن اپنی رائے کو ایک نظریاتی حقیقی بنیاد سے بہت دور رکھا ہے جیسا کہ عدالت کے سامنے حقائق سے واضح کیا گیا ہے ۔
قانون اور حقیقت
قانون کو حقائق پر کام کرنا چاہئے ۔ جب سپریم کورٹ نے سوچا کہ عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ ہوسکتا ہے تو اس نے دستور کے دفعہ 217 کی تشریح کی تاکہ ہائیکورٹ کے ججس کے تقرر کی سفارش کا اختیار رکھا جائے ۔ دفعہ 200 میں ایک سنگین مسئلہ کو پیش کیا گیا ہے مقننہ کی قوانین منظور کرنے کی صلاحیت جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کا جوہر ہے ۔ جب قوانین غیر واجبی ہوں اور جان بوجھ کر رکاوٹ پیدا کی جائے تو معقولیت کی اپیل بے کار ہی ہوتی ہے ۔