نامپلی ، جوبلی ہلز ، عنبر پیٹ اور مشیرآباد کے مسلمانوں کا امتحان

   

سکندرآباد لوک سبھا حلقہ میں کانگریس اور بی جے پی میں راست مقابلہ، ووٹ کی تقسیم کے بجائے مسلمان کانگریس کے حق میں متحدہ رائے دہی کریں
حیدرآباد ۔ 9۔ مئی (سیاست نیوز) تلنگانہ میں بی جے پی جن 10 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی کے نشانہ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، ان میں سکندرآباد نشست اہمیت کی حامل ہے۔ بی جے پی نے شہری علاقوں میں وزیراعظم نریندر مودی کی مقبولیت کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ سکندرآباد سے پارٹی کے ریاستی صدر کشن ریڈی کو کامیابی حاصل ہو۔ سکندرآباد لوک سبھا نشست میں مسلم رائے دہندے فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں اور 4 اسمبلی حلقہ جات ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی متحدہ اور یکطرفہ رائے دہی فرقہ پرست طاقتوں کو روکنے میں اہم رول ادا کرسکتی ہے۔ نامپلی ، جوبلی ہلز ، عنبر پیٹ اور مشیر آباد اسمبلی حلقہ جات میں مسلم اور سیکولر رائے دہندوں پر سیاسی پارٹیوں کی توجہ مرکوز ہے۔ سکندرآباد لوک سبھا حلقہ میں اس مرتبہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان راست مقابلہ ہے۔ یوں تو بی آر ایس بھی انتخابی میدان میں ہے لیکن شہر کے بیشتر اسمبلی حلقہ جات میں نمائندگی کے باوجود لوک سبھا چناؤ کے رجحانات مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ ملک بھر میں بی جے پی کی نفرت کی سیاست سے عوام عاجز آچکے ہیں۔ تلنگانہ میں کبھی بھی بی جے پی کا موقف مستحکم نہیں رہا لیکن گریٹر حیدرآباد میں کانگریس کے موقف میں کمزوری کا بی جے پی نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سابق میں بنڈارو دتاتریہ بی جے پی سے سکندرآباد کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ مرکزی وزیر اور بی جے پی کے ریاستی صدر کشن ریڈی نے ہندو ووٹ بینک پر توجہ مرکوز کی ہے اور انہیں بھروسہ ہے کہ سیکولر اور مسلم ووٹ کی تقسیم انہیں کامیاب کرے گی۔ 4 اسمبلی حلقہ جات کے مسلم رائے دہندوں کا اس مرتبہ امتحان رہے گا۔ یوں تو بیشتر مسلم مذہبی جماعتوں میں صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کانگریس کی تائید کا اعلان کیا ہے لیکن بی آر ایس اسمبلی چناؤ کے تجربہ کو دیکھتے ہوئے پرامید ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں بھی مسلمان بی آر ایس کا ساتھ دیں گے ۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ کانگریس نے گریٹر حیدرآباد میں پارٹی کے استحکام پر سابق میں توجہ نہیں کی تھی جس کے نتیجہ میں بی جے پی نے اپنے قدم جمالئے ہیں۔ اب جبکہ ملک میں فرقہ پرست طاقتوں سے سیکولرقوتوں کا راست مقابلہ ہے، ایسے میں لوک سبھا حلقہ سکندرآباد کے اقلیتی رائے دہندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرقہ پرست جماعت کو شکست دینے کی صلاحیت دینے والے امیدوار کی تائید کریں۔ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے سکندرآباد کی کامیابی کو بی جے پی کے لئے وقار کا مسئلہ بنادیا ہے ۔ پارٹی قیادت کو یقین ہے کہ سکندرآباد سے کشن ریڈی کامیاب ہوں گے اور اس کا اثر آئندہ اسمبلی انتخابات پر پڑے گا۔ بی جے پی نے بظاہر سکندرآباد لوک سبھا حلقہ میں ہندوتوا ایجنڈہ پر کھل کر عمل نہیں کیا لیکن انتخابی مہم کے دوران سنگھ پریوار کے کارکن گھر گھر پہنچ کر اکثریتی طبقہ کے خاندانوں سے حلف لے رہے ہیں۔ ہر گھر اور دکان کو ایودھیا کی رام مندر کا ماڈل بطور تحفہ پیش کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ رام مندر کی تعمیر نریندر مودی کا کارنامہ ہے۔ گریٹر حیدرآباد میں فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے سیکولر اور مسلم رائے دہندوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ سابق میں مسلم اکثریتی علاقوں میں رائے دہی کا فیصد کافی کم رہا ۔ نامپلی ، جوبلی ہلز ، عنبر پیٹ اور مشیر آباد کے مسلم رائے دہندوں میں شعور بیداری کی ضرورت ہے تاکہ رائے دہی کا فیصد 60 سے تجاوز کرے تاکہ کانگریس کے حق میں متحدہ رائے دہی بی جے پی کی شکست کا موجب بن سکے۔ مسلمانوں کے نوجوان رائے دہندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر والوں اور دوست احباب کو رائے دہی میں حصہ لینے کی کامیاب ترغیب دیں تاکہ گریٹر حیدرآباد کو فرقہ پرستی سے نجات دلائی جاسکے۔ سکندرآباد میں کانگریس نے رکن اسمبلی ڈی ناگیندر کو امیدوار بنایا ہے جبکہ بی آر ایس نے رکن اسمبلی پدما راؤ کو ٹکٹ دیا ہے۔ کانگریس اور بی آر ایس دونوں اقلیتی رائے دہندوں کی تائید کے بارے میں پرامید ہیں لیکن ملک کے موجودہ نازک حالات میں سکندرآباد لوک سبھا حلقہ کے مسلم رائے دہندوں کو کانگریس کے حق میں ووٹ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ صرف کانگریس پارٹی ہی فرقہ پرستوں کے بڑھتے قدم روک سکتی ہے۔ 1