نامپلی میں 1,13,000 بوگس ووٹ، فیروز خان نے ثبوت عوام میں جاری کیا

   

الیکشن کمیشن سے بارہا نمائندگی بے فیض، حیدرآباد لوک سبھا اور نامپلی میں مجلس کی کامیابی بوگس ووٹس کی مرہون منت، چیف منسٹر سے کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ
حیدرآباد 12 اگست (سیاست نیوز) پردیش کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری اور نامپلی انچارج محمد فیروز خان نے الزام عائد کیاکہ نامپلی اسمبلی حلقہ میں 1,13,000 بوگس ووٹ کئی برسوں سے برقرار ہیں اور الیکشن کمیشن سے بارہا نمائندگی کے باوجود جانچ کرتے ہوئے ناموں کو خارج نہیں کیا گیا۔ فیروز خان نے گاندھی بھون میں پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعہ نامپلی اسمبلی حلقہ میں بوگس ووٹوں کی موجودگی کی تفصیلات میڈیا کے سامنے پیش کیں۔ اُنھوں نے کہاکہ لوک سبھا حلقہ حیدرآباد اور نامپلی اسمبلی حلقہ میں بوگس ووٹوں کے ذریعہ ہی مجلس کامیابی حاصل کررہی ہے۔ بوگس ووٹ مختلف انداز میں موجود ہیں جن میں ایک گھر میں بڑی تعداد میں نام، ایک سے زائد مرتبہ ایک ہی رائے دہندے کا نام اور فرضی نام شامل ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ گزشتہ 6 برسوں سے وہ بوگس ووٹوں کا پتہ چلانے اور اُنھیں فہرست سے خارج کرنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ کئی ماہ تک مسلسل ریسرچ کے بعد اُنھوں نے مختلف انداز میں موجود بوگس ووٹوں کی تفصیلات کو اکٹھا کیا اور الیکشن کمیشن کو پیش کیا گیا۔ 4 جولائی 2023ء کو اُس وقت کے چیف الیکٹورل آفیسر کو 1,13,000 بوگس ووٹوں کے بارے میں ثبوت کے ساتھ نمائندگی کی گئی۔ 15 جولائی 2023ء کو نئی دہلی میں چیف الیکشن کمشنر سے ثبوت کے ساتھ نمائندگی کی گئی۔ ڈپٹی الیکشن کمشنر آف انڈیا کو 3 اگست 2023ء کو بوگس ووٹوں کے ثبوت پر مبنی سی ڈی اور پن ڈرائیو حوالہ کیا گیا۔ کمیشن کے پرنسپل سکریٹری اویناش کمار نے نمائندگیوں پر جواب دیتے ہوئے انکشاف کیاکہ 40 ہزار بوگس ووٹوں کا پتہ چلایا گیا ہے۔ فیروز خان نے بتایا کہ اُنھوں نے 12 اکٹوبر 2023ء کو ہائیکورٹ میں رٹ درخواست دائر کی اور شکایت کی کہ بوگس ووٹوں کے ذریعہ ثبوت کے باوجود الیکشن کمیشن نے ناموں کو حذف نہیں کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو تیقن دیا کہ اِس معاملہ کی جانچ کرتے ہوئے ناموں کو حذف کیا جائے گا۔ 17 اکٹوبر 2023ء کو چیف الیکٹورل آفیسر سے دوبارہ نمائندگی کی گئی۔ فیروز خان نے کہاکہ وہ 2019ء سے بوگس ناموں کو حذف کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں تاکہ نامپلی میں آزادانہ اور منصفانہ رائے دہی کو یقینی بنایا جاسکے۔ 2019ء میں رائے دہی کے موقع پر نامپلی میں مجلس سے تعلق رکھنے والے افراد کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا اور مقدمات درج کئے گئے۔ اُنھوں نے شکایت کی کہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن بعض سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ملی بھگت کرچکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بوگس ناموں کا پتہ چلانے کی ذمہ داری ریونیو حکام کو دی لیکن یہ کام بھی مکمل نہیں ہوا۔ اُنھوں نے کہاکہ طویل جدوجہد کے باوجود محض 10 فیصد بوگس فہرست رائے دہندگان سے حذف ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ راہول گاندھی کی قیادت میں انڈیا الائنس کی تمام پارٹیوں نے ملک میں ووٹ چوری کے خلاف تحریک کا آغاز کیا ہے اور نامپلی میں بوگس ووٹ کا معاملہ اِسی تحریک کا حصہ ہے۔ اُنھوں نے الزام عائد کیاکہ حیدرآباد لوک سبھا حلقہ اور نامپلی اسمبلی حلقہ میں مجلس بوگس ووٹوں کے ذریعہ ہی کامیابی حاصل کررہی ہے اور یہ طریقہ کار بی جے پی کو سکھایا گیا ہے۔ اُنھوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیاکہ وہ ڈیجیٹل ووٹر لسٹ کو عوام کے مشاہدے کے لئے پیش کرے تاکہ عوام بوگس ناموں کا پتہ چلاسکیں۔ اُنھوں نے کہاکہ یہ جدوجہد سیاسی نہیں بلکہ جمہوریت کے تحفظ کے لئے ہے تاکہ ایک شخص کو ایک ووٹ کا حق حاصل ہو۔ فیروز خان نے الزام عائد کیاکہ مجلس دراصل بی جے پی کی بی ٹیم ہے اور دونوں کا طریقہ کار اور پالیسی ایک ہی ہے۔1
اُنھوں نے کہاکہ اسدالدین اویسی جب نریندر مودی پر تنقید کرتے ہیں تو اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی جبکہ دوسروں کے پیچھے سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس جیسے اداروں کو لگادیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ جوبلی ہلز میں مسلم رائے دہندے 1.20 لاکھ ہیں جبکہ سکندرآباد لوک سبھا حلقہ میں 5 لاکھ مسلم رائے دہندے ہیں لیکن مجلس اِن دونوں حلقوں میں مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتی۔ اُنھوں نے چیف منسٹر ریونت ریڈی سے اپیل کی کہ تلنگانہ میں بوگس ووٹرس کا پتہ چلانے کے لئے سینئر قائدین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیں۔ فیروز خان نے کہاکہ راہول گاندھی کو ملک کے آئندہ وزیراعظم کے طور پر فائز کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک بھر میں فہرست رائے دہندگان سے بوگس ناموں کو حذف کیا جائے۔1