دہلی میں موہن بھاگوت سے عمیر احمد الیاسی اور دیگر قائدین کی ملاقات سے خفیہ ایجنڈہ پر عمل
حیدرآباد۔25جولائی (سیاست نیوز) نام نہاد مسلمانوں کے وفود نے جب کبھی آر ایس ایس کے قائدین سے ملاقات کی اس کے بعد ملک میں رہنے والی دوسری بڑی اکثریت یعنی مسلمانوں پر کوئی نئی آفت آئی اس کی کئی مثالیں موجود ہیں اور 2014 کے بعد جب کبھی آر ایس ایس قائدین نے خواہ مسلم راشٹریہ منچ کے ذریعہ ہو یا راست آر ایس ایس کے قائدین ہو ں ان کی ضمیر فروش مسلمانوں سے ملاقات نے مسلمانوں کو ہندستان میں کسی بھی طرح کی راحت تو نہیں پہنچائی لیکن مخالف مسلم قوانین کو منظوری دی گئی یا پھر نئی ہراسانی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ آر ایس ایس سے بھلائی کی توقع کرنے والے مسلمان خواہ وہ کسی علاقہ یا خطہ سے تعلق رکھتے ہوں وہ مسلمانوں کے نمائندہ نہیں ہوسکتے ۔گذشتہ یوم آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے دہلی میں موجود ہریانہ بھون میں عمیر احمد الیاسی اور دیگر 60 نام نہاد مسلم قائدین سے ملاقات کی ۔ بتایاجاتا ہے کہ اس ملاقات کے دوران ہندو مسلم بھائی چارہ ‘ رواداری اور ہم آہنگی کے سلسلہ میں تبادلہ خیال کیاگیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملاقات کے دوران آر ایس ایس سربراہ نے ان 60مسلم نما چہروں کو درس دیتے ہوئے ہندستان میں زندگی گذارنے کے اصولوں سے واقف کروایا اور ان کو مشورہ دیا کہ وہ ان اصولوں کی تبلیغ و اشاعت کرتے ہوئے آر ایس ایس کے نظریات کو عام کریں۔ ہندستان میں طلاق ثلاثہ قانون کے نفاذ سے قبل بھی آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ کے ذریعہ نام نہاد مسلمانوں تک رسائی حاصل کرتے ہوئے ان کی مدد حاصل کرتے ہوئے ہندستانی مسلمانوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی تھی کہ ہندستانی مسلمان بھی طلاق ثلاثہ کے معاملہ میں حکومت کے موقف کی تائید کر رہے ہیں۔ اسی طرح وقف مرممہ قوانین کی منظوری سے قبل بھی آر ایس ایس نے نام نہاد مسلمانوں بالخصوص دیوان جی اجمیر اور ان کے ہمنوا ٹولہ سے ملاقاتوں کے ذریعہ یہ باور کروایا کہ ہندستانی مسلمان خود چاہتے ہیں کہ وقف قوانین میں ترمیم کی جائے ۔ اسی طرح جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کی تنسیخ سے قبل بھی آر ایس ایس قائدین نے مسلم نظرآنے والی ٹولیوں کا استعمال کرتے ہوئے کشمیر کو حاصل خصوصی موقف ختم کئے جانے کے بعد ان کے دورۂ کشمیر کا اہتمام کیا تھا جہاں سے مسلم نما چہروں والے ان کالی بھیڑوں کو بھاگنا پڑا تھا۔ عمیر احمد الیاسی وہ شخص ہے جس نے موہن بھاگوت کو ’راشٹر پتا‘ قرار دیا تھا اور اس شخص نے دوبارہ آر ایس ایس سربراہ سے ملاقات کرتے ہوئے ہندو۔مسلم مذاکرات کے آغاز کی بات کرنی شروع کی ہے۔ وقف مرممہ قوانین کو منظور ی دیئے جانے سے قبل بھی ہندستان کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے باریش چہروں کو ’صوفی‘ اور عالم کے طور پر پیش کرتے ہوئے وقف قوانین کی حمایت کروائی گئی تھی اسی طرح اب اس ملاقات کے بعدہندستانی مسلمانوں کے خلاف ایوانوں میں بنی جانے والی سازشوں سے چوکنا ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ گذشتہ یوم کی ملاقات کے دوران موہن بھاگوت اور عمیر الیاسی کے درمیان آسام میں مسلمانوں کی بستیوں کو اجاڑے جانے یا اترپردیش میں کانوڑ یاتراکے دوران حملے کئے جانے کے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی ۔ باریش وفد میں شامل افراد نے موہن بھاگوت سے ہجومی تشدد یا گاؤ کشی کے نام پر کئے جانے والے قتل کے متعلق کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی ہندستانی مسلمانوں کو درپیش مسائل پر کسی طرح کی گفتگو کی گئی لیکن ان نام نہاد کالی بھیڑوں نے اپنی جبین نیاز کو موہن بھاگوت کی چوکھٹ پر جھکاتے ہوئے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ وہ آر ایس ایس کے ہر حکم کی اتباع کرنے کے لئے آمادہ ہیں ۔ عمیر الیاسی کے علاوہ چند ایک باریش نام نہاد مسلمان آر ایس ایس قائدین سے کھل کر ملاقاتیں کرنے لگے ہیں جبکہ ہندستان کی کئی سرکردہ تنظیموں کے نمائندے بھی آر ایس ایس سربراہ کے علاوہ دیگر ہندوتوا قائدین سے خفیہ ملاقاتوں کے ذریعہ اپنے مفادات کے حصول کی کوشش میں مصروف ہیں۔3