نظام آباد کی تاریخ سے ناواقف رکن پارلیمنٹ ڈی اروند کے بیان پر زبردست ہلچل
نظام آباد :21؍ اگسٹ ( محمد جاوید علی کی خصوصی رپورٹ)رکن پارلیمنٹ نظام آباد مسٹر ڈی اروند کی جانب سے نظام آباد ضلع کا نام بدل کر ’’ اندور‘‘ رکھنے کے مطالبہ پر عوام میں الجھن پیدا ہوگئی ہے اور عوام کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور اس بات کی دلیل پیش کی جارہی ہے کہ رکن پارلیمنٹ مسٹر ڈی اروند انتخابات میں جواعلانات کئے تھے اس کی ناکامی کے بعد اس پر پردہ ڈالنے کیلئے ایک نیا تنازعہ پیدا کرتے ہوئے عوام کی توجہ کو ہٹانے کیلئے اس طرح کے بیانات دینے کے بھی الزامات عائد کئے جارہے ہیں ۔ ٹی آرایس ضلع صدر ایگا گنگاریڈی نے کل صحافتی کانفرنس کا انعقاد عمل میں لاتے ہوئے اروند سے سخت ناراضگی ظاہر کی تھی اور کہا کہ مسٹر ڈی اروند عوام کی توجہ کو ہٹانے کیلئے اس طرح کے بیانات جاری کررہے ہیں تین ماہ کا وقفہ گذرنے کے باوجود بھی ابھی تک ہلدی بورڈ کا قیام عمل میں نہیں لایا جبکہ ڈی اروند نے بائونڈ پیپر پر تحریر لکھ کر دی تھی کہ ہلدی بورڈ کے عدم قیام کی صورت میں مستعفی ہوجانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ اپنے اعلان پر عمل پیرا ہونے کے بجائے اندور نام کو لیکر ایک نیا تنازعہ پیدا کیا عوام کی جانب سے یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ یہ نظام آباد کا نام اندور جس وقت تھا اس وقت نظام آباد کی ترقی نہیں کے برابر تھی اور نظام دکن آصف جاہ ششم کے نام سے ان کے ترقیاتی کاموں کے باعث یہ نام رکھا گیا ۔ نظام ساگر پراجیکٹ کی تعمیر ی کے بعد نظام ساگر کنال سے ضلع کے آدھے حصہ کو کنال کے ذریعہ پانی سربراہ کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے کئی دیہات سرسبز و شاداب بن گئے اور آندھرائی باشندے یہاں پہنچ کر اراضیات کو خرید کر سیراب کرنا شروع کیا اور لاکھوں ایکر پر زراعت جاری ہے ۔ نظام شوگر فیکٹری اشیاء کی پہلی شوگر فیکٹری تھی جو کسانوں کیلئے قائم کی گئی تھی اور یہاں پر کسان ٹرین کے ذریعہ نیشکر فیکٹری منتقل کیا کرتے تھے اور ریلوے پٹری کسانوں کے زرعی کھیتوں پر تنصیب کی گئی تھی تاریخ سے ناواقف ڈی اروند نے نظام آباد کے نام کو تبدیل کرنے کے بیان بازی کے ذریعہ اپنی فرقہ پرست ذہنیت کو ظاہر کررہے ہیں جبکہ نظام آباد سے ہی ان کے والد کی شناخت تھی ان کے والد ڈی سرینواس کو ہمیشہ نظام آباد کے مسلمانوں نے ساتھ دیا تھا جس کی وجہ سے یہ ہمیشہ انتخابات کامیاب ہوتے ہوئے آرہے تھے نظام آباد گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ ہے یہاں پر مسجد اور مندر ایک دوسرے دہلیز کے سامنے ہے اور کنٹیشور میں واقع درگاہ اور مندر ایک ہی مقام پر واقع ہے لیکن اس کے باوجود بھی آج تک کوئی بھی فرقہ وارانہ نہیں ہوا یہاں پر مسجد اور گرودواڑہ ایک دوسرے کے قریب ہے اور یہا ں نظام آباد میں گنگا جمنی کی مثال ہے اور اپنی اپنی روایتی عبادتوں میں مصروف ہے۔ لیکن ملک گیر سطح پر بی جے پی جس طرح اپنی فرقہ پرست منصوبہ کے تحت ملک گیر سطح پر فرقہ وارانہ کو فروغ دے رہی ہے اسی کے تحت مسٹر ڈی اروند بھی اپنے منصوبوں کا اظہار کرنا شروع کیا ہے اروند کے بیان کے بعد عوام میں ایک ہلچل پیدا ہوگئی اور تشویش کا اظہار کررہے ہیں اور اس بات کا مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ہلدی بورڈ کے قیام کیلئے جو وعدہ کیا گیا تھا اس پر عمل پیرا ہوجانے اور ہلدی بورڈ کے عدم قیام کی صورت میں وعدہ کے مطابق مستعفی ہونے کا بھی ٹی آرایس پارٹی کی جانب سے مطالبہ کیا جارہا ہے ۔