نبیؐ رحمت تلواروں کے سایے میں

   

کے این واصف
دین سے دوری، دینی علم کے حاصل کرنے میں عدم دلچسپی، بنیادی تعلیم سے تک آراستہ نہ رہنا جیسے حقائق ہیں جو ہماری ملت کی ناکامی اور خواری کا باعث بن رہا ہے۔ مگر ایسے حالات میں بھی کچھ ادارے یا شخصیات ہیں جو اس کوشش میں جٹے ہیں کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکالیں اور ان کے ذہنوں کو علم و آگہی کے اُجالے بخشیں۔ اس مقصد کے لئے یہ لوگ اپنا وقت، توانائی اور پیسہ بھی خرچ کررہے ہیں۔ ایسی نیک نفس شخصیات میں نعیم جاوید صاحب ایک نمایاں نام ہے۔ محقق، دانشور، دینی اسکالر، سماج سدھار، ملت کے دردمند نعیم جاوید کبھی آپ کے آگے تاریخ اسلام کے اوراق کھولیں گے، کبھی سیرت نبی ﷺ پر بیان سے۔ ہم پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال کر ہمیں آشکار و اشکبار کریں گے۔ کبھی اقبالؔ فہمی پر بولیں گے تو آپ پر اقبال کی شاعری کا مقصد، پیام اور مفاہیم کھول کر حیرت زدہ کریں گے اور کبھی عصری ادب و شاعری پر اظہار خیال کرکے آپ کے ذہن و قلب کو مسرور و مگن کریں گے۔ نعیم جاوید نہ صرف ایک قادرالکلام مقرر ہیں بلکہ ایک قابل قدر قلمکار بھی ہیں۔ آپ صرف فنِ خطاب پر قدرت نہیں رکھتے بلکہ ادارہ ’’ھدف‘‘ کے ذریعہ فن خطاب کی تربیت بھی دیتے ہیں۔
سکسیس (Success) انٹرنیشنل اسکول ریاض یہاں نعیم جاوید صاحب کے لکچرس کا اہتمام کرتا ہے۔ حسب روایت اسکول کے منیجنگ ڈائرکٹر سید مسعود نے جمعرات کی شب نعیم جاوید کے ایک اور لیکچر کا اہتمام کیا۔ اس بار نعیم جاوید نے ’’نبیؐ رحمت تلواروں کے سایے میں‘‘ عنوان سے اپنا لکچر پیش کیا اور حق و باطل کے فیصلہ کن معرکہ غزوۂ بدر پر عالمانہ خطاب کیا۔ نعیم جاوید نے اپنے لکچر میں دور حاضر کے مسائل اور آج کے حالات کا مقابلہ کرنے کا راستہ نبیؐ رحمت کی حیات طیبہ اور سیرت نبیؐ میں تلاش کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ نعیم جاوید نے کہاکہ دورِ حاضر میں مسلمانوں کی ناکامیوں کی وجہ ان میں قوت برداشت کی کمی ہے۔ ہندوستان میں خصوصاً حالیہ انتخابات کے نتائج کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی جو ذہنی کیفیت ہے اس کے تناظر میں نعیم جاوید نے کہاکہ خوف اور مسلمان کبھی یکجا نہیں ہوتا۔ اسلامی تاریخ کی رو سے شکست قبول کرنا ہمارا شیوا نہیں۔ اقلیت میں رہ کر اکثریت پر غلبہ پانا ہمارا ورثہ ہے۔ ہمارا اثاثہ مال و متاع نہیں بلکہ تقویٰ اور ایمانی جذبہ ہونا چاہئے۔ انھوں نے کہاکہ ہندوستان کے جل تھل میں ہمیں سیرت سے رہنمائی اور نبیٔ رحمت ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ ہماری حکمت عملی ایسی ہو جو منکر و کافر کو قائل کرے اور اُسے راہ حق اختیار کرنے کی طرف مائل کرے۔ نعیم جاوید نے کہاکہ اسلام سے متعلق اغیار میں جو غلط فہمیاں ہیں اُس کے لئے بڑی حد تک ہم خود ذمہ دار ہیں۔ ہم اپنے غیر مسلم ہم وطنوں سے قربتیں نہیں بڑھاتے۔ اور ان سے حتی الامکان فاصلہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیز غیر مسلم کے ذہنوں سے اسلام سے متعلق غلط فہمی دور کرنے کے لئے پہلے ہمیں خود پوری طرح اسلام سے واقف ہونا چاہئے۔ ہمیں تاریخ اسلام، اسلامی تعلیمات اور اسلام کے مثبت پہلوؤں کا ادراک ہونا چاہئے۔ لیکن آج ہماری اکثریت اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں بنیادی معلومات، اسمائے اُمہات، جلیل القدر صحابہؓ کے نام وغیرہ سے تک واقف نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اراکین اسلام سے واقفیت کے علاوہ دیگر دینی معلومات حاصل کرنا اور تاریخ اسلام کو پڑھنے کو اپنے معمولات میں شامل کرنا چاہئے۔ دینی اجتماعات میں حاضری دینی چاہئے۔ نعیم جاوید نے مزید کہاکہ ہمارے نبی ﷺ مہمات والے نبیؐ تھے۔ ہمارے نبیؐ غزوات والے نبیؐ تھے۔ ہمارے نبیؐ شدید بھوک و پیاس کو برداشت کرنے والے نبیؐ تھے۔ ہمارے نبیؐ راہِ حق پر اڑجانے اور باطل سے لڑجانے والے نبیؐ تھے۔ لیکن ہمارے شاعروں، ادیبوں اور مضمون نگار نے اپنی تخلیقات میں ان حقائق کو ایسا نہیں اُبھارا یا پیش کیا جیسا کہ اس کا حق تھا۔ ہمارے ادب نے ہمیں اس بات پر زور دے کر نہیں بتایا کہ بھوک پیاس، مسائل کا انبار اور محدود وسائل کے ساتھ کس طرح جینا چاہئے۔ اس کے تذکرے ہماری کتابوں میں ہمارے نصابوں میں جابجا ہونے چاہئے تھے تاکہ اُمت کے ذہن میں یہ احساس ہمیشہ تازہ رہے کہ دین اسلام کی بقاء اور اشاعت کے لئے نبیؐ رحمت اور صحابہ کرام نے کیسے کیسے مسائل و مصائب جھیلے۔ ہمارے نبیؐ اور تابعین کی زندگیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے۔
صدر محفل ڈاکٹر سید مسعود منیجنگ ڈائرکٹر سکسیس انٹرنیشنل اسکول ریاض نے محفل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اس لکچر کا اہتمام ہمارے ادارہ کی جانب سے کیا گیا ہے۔ ماہ رمضان کی مناسبت سے اس کا عنوان بھی منتخب کیا گیا۔ مسعود نے کہاکہ ادارہ کی جانب سے ایسے لکچرز کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ آج کے عنوان پر ان کا خطاب بہت پُراثر اور معلومات آفریں رہا۔ سید مسعود نے حاضرین محفل کا اور خصوصی طور پر نعیم جاوید کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے اسکول کی دعوت قبول کرتے ہوئے دمام سے ریاض آنے کی زحمت کی اور ہمیں ایک بہترین عنوان پر سیر حاصل معلومات فراہم کیں۔
اس محفل کا آغاز حافظ و قاری امجد حسینی حسامی کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ معروف صحافی محمد سیف الدین نے کلیدی مقرر نعیم جاوید کا تعارف پیش کیا۔ سماجی کارکن، عالم دین مولانا سالم زبیدی نے سامع اجلاس کا کردار ادا کیا۔ اور حاضرین محفل سے سوالات کئے۔ اس محفل میں کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ راقم نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔
عثمانیہ المنائی اسوسی ایشن، ریاض
عثمانیہ یونیورسٹی المنائی اسوسی ایشن کے ایک وفد نے سفیر ہند ڈاکٹر اوصاف سعید سے ملاقات کی۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر اوصاف سعید خود بھی عثمانیہ یونیورسٹی کے ہونہار سپوت ہیں۔ اُنھوں نے عثمانیہ سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ سفیر ہند سے ملاقات کرنے والے وفد میں اسوسی ایشن کے صدر محمد مبین کے علاوہ محمد شہباز فاروقی، وینو مادھو، سلطان مظہرالدین، سہیل صدیقی، سید عتیق، اسلم خاں، راقم الحروف اور صادق الرحمان شامل تھے۔
ڈاکٹر اوصاف سعید نے اسوسی ایشن کو تجویز کیاکہ وہ تعلیمی پروگرامس پر زیادہ توجہ دیں۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے کہاکہ ایک ماہرین تعلیم کا گروپ یا اسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ بڑے پیمانے پر تعلیمی سرگرمیاں انجام پاسکیں۔ نیز اگر کوئی بھی اسوسی ایشن ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے کلچرل ٹروپس کو یہاں مدعو کرنا چاہیں تو ایمبیسی اُن کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔ اُنھوں نے یہ بھی کہاکہ ریاست تلنگانہ سے تاجرین کا ایک وفد جلد ہی ریاض آئے گا۔ وفد کے اراکین جن کا تعلق یہاں مختلف شعبہ حیات سے ہے نے بھی سفیر ہند کو کچھ تجاویز پیش کیں۔ اسوسی ایشن کے نائب صدر محمد شہباز فاروقی نے یہاں سرمایہ کاری کے میدان میں موجود مواقع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اگر ہم چھوٹے اور متوسط درجہ کے ہندوستانی تاجرین کو جو یہاں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں کیلئے کوئی معلوماتی پروگرام کا اہتمام کریں تاکہ تاجرین کو آگہی حاصل ہو۔ IT شعبہ سے منسلک اسلم خاں نے کہاکہ شہر حیدرآباد ہندوستان میں آئی ٹی کے شعبہ میں ترقی کرنے والا ایک بڑا مرکز ہے اور سعودی عرب میں اس شعبہ میں سرمایہ کاری کے بڑے مواقع موجود ہیں۔ اس موضوع کو حکومتی سطح پر اُٹھاکر دونوں ممالک کے درمیان اس شعبہ کی تجارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ پی وینو مادھو نے کہاکہ سعودی عرب میں کام کرنے والے جملہ ہندوستانی تارکین وطن میں حیدرآباد یا تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے تعداد کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج تک ریاض سے حیدرآباد راست ایر انڈیا کی پرواز نہیں ہے جبکہ اس سیکٹر پر ہزاروں مسافرین ہیں۔ جن سے دیگر ایرلائنز فائدہ اُٹھارہی ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ اس جانب توجہ کی جانی چاہئے۔ صدر اسوسی ایشن محمد مبین نے بتایا کہ ہماری تنظیم ہر سال بڑے پیمانے پر مولانا آزاد کے یوم پیدائش پر ’’یوم تعلیم‘‘ منانے کا اہتمام کرتی ہے اور اس سلسلہ میں بہت سی تعلیمی سرگرمیاں انجام دیتی ہیں جس میں مقامی اسکولی بچوں کے لئے تقریری، تحریری مقابلے اور کوئیز پروگرامس وغیرہ شامل ہیں۔ محمد مبین نے ایک اور نکتہ کی طرف توجہ دلائی کہ عثمانیہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کی ڈگریوں کی تنقیح و تصدیق کے کام میں بہت زیادہ وقت لیتا ہے جس سے خلیجی ممالک میں خصوصاً اور دیگر ممالک جانے والے طلباء مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ جواہر لال نہرو ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی (JNTU) اور کاکتیہ یونیورسٹی یہ کام 20 دن میں مکمل کردیتے ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی اس کے لئے دو سے تین ماہ کا وقت لے رہی ہے جو طلباء کے لئے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ اسوسی ایشن کے ایک اور رکن صادق الرحمن نے اس سلسلہ میں اضافہ کرتے ہوئے کہاکہ سعودی عرب یا گلف میں حیدرآبادی آئی ٹی پروفیشنلس کی کافی قدر و مانگ ہے۔ مگر ڈگری کی تنقیح اور تصدیق میں تاخیر سے ہمارے نوجوان مسائل کا شکار ہورہے ہیںکیونکہ یہاں کی کمپنیوں کے آجرین ملازم کو اتنا وقت نہیں دیتے۔ لہذا یہ نوجوان ملازمت کے مواقع کھو رہے ہیں محض عثمانیہ یونیورسٹی کے انتظامیہ کے عدم تعاون کی وجہ سے۔ تلنگانہ حکومت اور عثمانیہ یونیورسٹی کو اس جانب فوری توجہ کرنی چاہئے۔ سفیر ہند نے وفد کے اراکین کی پیش کردہ تجاویز کو قبول کیا اور مسائل کے حل کا تیقن دیا۔
knwasif@yahoo.com