نتیانند کا ہندو راشٹرا ۔ انسان عقیدہ کا یرغمال

   

رام پنیانی

مذہب شاید سب سے زیادہ پیچیدہ انسانی معاملہ ہے۔ صدیوں سے فلسفی کوشاں ہیں کہ اسے سمجھیں اور اس کی تشریح کریں۔ مختلف مبصرین نے اس کے کئی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی ہے۔ شاید اس معاملہ کا جامع فہم و ادراک کارل مارکس نے پیش کیا، جیسا کہ انھوں نے لکھا کہ ’’انسان مذہب بناتا ہے۔ یہ مملکت، یہ سماج مذہب پیدا کرتے ہیں، جو معکوس عالمی شعور ہے، کیونکہ وہ دنیا ہی مقلوب ہے۔ مذہب دنیا کا مقلوب نظریہ ہے، یہ ہمہ گیر خلاصہ ہے، یہ مقبول نوعیت کی منطق ہے… مذہب مظلوم مخلوق کی آہ ہے، قلب سے عاری دنیا کا قلب ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے مایوس کن صورتحال کا حوصلہ ہے۔ یہ لوگوں کیلئے روحانی تسکین ہے‘‘۔
کارل مارکس کے آخری جملہ والا فقرہ ’’لوگوں کی روحانی تسکین‘‘ کافی مقبول ہوا، لیکن اس سے پوری تصویر واضح نہیں ہوتی ہے۔ اس قاعدہ کی دلکشی بدستور سمجھی نہیں گئی ہے بالخصوص اس کے فقرہ ’’مظلوم مخلوق کی آہ‘‘ کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ یہ سب باتیں ذہن میں آتی ہیں جب کوئی فرد زندگی کے زیادہ تر شعبوں میں مذہب کی جارح شکل میں مداخلت کو دیکھتا ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ تیل کے وسائل پر کنٹرول کرنے کی سیاست ’اسلامی دہشت گردی‘ کے نام پر اُبھر آتی ہے، قوم پرستی کو مذہب کے ساتھ خلط ملط کردیا گیا ہے، اندھے عقیدہ میں شدت پیدا کردی گئی ہے، اور پھر ایک اور سطح پر ہم گاڈمین (خودساختہ سادھو اور بابا وغیرہ) کا پھیلاؤ دیکھ رہے ہیں، جو محض چند دہے پرانی روش ہے، اور خاص طور پر گزشتہ تین دہوں میں زیادہ زور پکڑچکی ہے۔
یوں تو مذہب کے شروع سے آخر تک ہمہ نوعیت کے کردار ہوتے ہیں، لیکن ان میں بڑا پہلو ایک طرف مذہب کے ٹھیکیدار اور اہل کلیسا ہیں تو دوسری طرف بابا لوگ ہیں۔ مذہبی طور پر بااثر اشخاص وہ ہیں جو اقتدار کی طرف رہتے ہیں (کنگ۔ پوپ، راجہ۔ راج گرو اور نواب۔ شاہی امام) اور سادھو ، بابا لوگوں کا تعلق ہندوستان میں بھکتی اور صوفی مت سے ہوتا ہے، جو متوسط طبقہ کو حوصلہ دیتے ہیں، انسانیت پر عمل پیرا رہنے کی بات کرتے ہیں اور سماجی عدم مساوات کی مخالفت کرتے ہیں۔
گاڈمین کی موجودہ روش کئی طرح سے عجیب ہے۔ بدلے سیاسی منظر میں اُن کا رول گزری صدیوں کے ٹھیک مذہبی طبقہ والا نہیں ہے۔ وہ مالدار اور غیرمالدار دونوں میں اپنے قابل لحاظ حامی رکھتے ہیں۔ اگرچہ وہ اخلاقی اور روحانی درس کی بات کرتے ہیں، لیکن اُن کی اکثریت کے ایسے پوشیدہ پہلو ہوتے ہیں جہاں کئی مشکوک سرگرمیوں کو واضح طور پر تاڑا جاسکتا ہے۔ اپنی غیرقانونی سرگرمیوں کیلئے قانون کو دھوکہ دینے کی کوششیں ان میں سے اکثر کا خاصہ رہا ہے۔
ہمیں سوامی نتیانند کے معاملہ میںنیا طریقہ دیکھنے کو ملا ہے۔ پیدائش پر اُس کا نام اے راجہ شیکھرن رکھا گیا اور زعفرانی پوشاکیں اختیار کرتے ہوئے وہ نتیانند بن گیا۔ اُس کے اندرون و بیرون ہندوستان بڑی تعداد میں بھکت ہیں۔ اُس کی قبیل کے کئی دیگر کی طرح وہ بھی ریپ اور مرڈر کے کیسوں میں ملوث ہے۔ قانون کی گرفت سے بچنے کیلئے کوشش کرنے والے دیگر افراد کے برخلاف نتیانند نے کچھ اور ہی راستہ اختیار کیا، جو ایک نئے ملک کا قیام ہے! نتیانند نے ساؤتھ امریکا کے مغربی ساحل پر ایکواڈر سے ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو کی طرف ایک آئی لینڈ (جزیرہ) خریدا اور اسے ’ہندو نیشن‘ قرار دیتے ہوئے اس کو ’کائلسا‘ کا نام دیا، جہاں ستم زدہ ہندو لوگ بھاری فیس کے عوض سٹیزن شپ خرید سکتے ہیں اور وہ ہندو مذہب پر عمل پیرا رہ پائیں گے۔ اس نے اپنا قومی پرچم، قومی زبانیں اور دیگر علامتوں کے ساتھ ویب سائٹ بھی بنالئے ہیں۔ اس نے اپنے وزیراعظم کو نامزد کیا اور کابینہ بھی مقرر کی جو اس ہندو مملکت کے امور کے تعلق سے فیصلے کرے گی۔
گاڈمین جیسے رجحانات اسلام یا عیسائیت میں قابل لحاظ طور پر دکھائی نہیں دیتے ہیں ماسوائے بینی مین جیسے بعض افراد۔ تاہم، اسلام، اسلامی کٹرپسندی، اور عیسائی کٹرپسندی اور بدھسٹ کٹرپسندی کے نام پر سیاست دنیا میں بالخصوص مغربی اور جنوبی ایشیا میں پھل پھول رہی ہے۔ نتیانند سے قبل ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح پہلے آسارام باپو اور پھر گرمیت رام رحیم انسان بڑی مشکل سے گرفتار کئے گئے۔ رام رحیم کی گرفتاری کے موقع پر درجنوں جانیں تلف ہوئیں۔ باہمت جرنلسٹ چھترپتی رامچندر کو قتل کیا گیا کیونکہ وہ رام رحیم سنگھ انسان کی ’سلطنت‘ ڈیرہ سچا سودا کے داخلی حالات کا پردہ فاش کررہا تھا۔ گرمیت کو ہریانہ کی بی جے پی حکومت نے لاکھوں روپئے بطور عطیہ دیئے، اور سابقہ وزارت کی پوری کابینہ اُس کا آشیرواد لینے ڈیرہ گئی تھی۔ آسارام کے آشرم میں بھی سیاسی مہارتھیوں کا جھرمٹ لگا رہتا تھا جن میں ہمارے موجودہ وزیراعظم شامل ہیں۔
سوامی نتیانند کو طاقتور مالداروں کی حمایت حاصل ہے، جن میں کئی گجرات کے ہیں۔ مالدار بھکتوں کے علاوہ متوسط طبقہ کے افراد بھی عقیدہ کا کھلواڑ کرنے والوں کے بھکت ہوتے ہیں۔ اپنے گرو کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مارے جانے والے لوگ اوسط طبقہ کے افراد تھے۔ حال ہی میں پانی پت کے سفر کے دوران میرے محافظ نے مجھے بتایا کہ سڑک سے تھوڑے فاصلے پر جیل میں گرمیت قید ہے۔ اُس کے بھکت سفر کے دوران اس جیل کے قریب رک کر اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے بعد ہی اپنے سفر میں آگے بڑھتے ہیں۔ دیگر باتوں سے کہیں زیادہ مجھے باہمت جرنلسٹ رامچندر کے سفاکانہ قتل نے دہلایا، جس نے اپنی زندگی کو خطرات لاحق ہونے کے باوجود اپنا کام آگے بڑھایا جو کسی بھی جرنلسٹ کو کرنا چاہئے کہ گرمیت کے تعلق سے سچائی کو بے نقاب کیا۔
ایسے گاڈمین کے جنسی جرائم کے بعد بچ نکلنے کے واقعات بیان کرنے لگیں تو کئی جلدیں تیار ہوجائیں، اور اُن کی شکار مظلوموں کی دل دہلادینے والی بپتائیں سنیں تو خون کھولنے لگے۔ ایسی قبیل والوں میں بعض دیگر گاڈمین کو مختلف چالیں چلنے میں مہارت حاصل ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ستیہ سائی بابا نے سینکڑوں کروڑ کی ’امپائر‘ کھڑی کی؛ ہم یوگا گرو رام دیو کو دیکھ رہے ہیں جس نے یوگا سے پتانجلی انٹرپرائز کی طرف رُخ کیا اور اب ملک کے امیر انٹریپرینرس میں شمار کیا جاتا ہے۔ گاڈویمن کی تعداد کم ہے لیکن اُن کا اثر بھی خوب رہا جیسے ماتا امریتانند مائی، رادھے ما، جو کئی موقعوں پر شہ سرخیوں میں رہی ہیں۔
سماجی پنڈتوں کو ضرور مشقت کرکے ہمیں بتانا چاہئے کہ اس نئی روش کا سوسائٹی پر کیا اثر پڑرہا ہے۔ ان سطور میں جن کے نام لئے گئے وہ مشہور گاڈمین ؍ گاڈویمن ہیں، لیکن بلاشبہ ایسے سینکڑوں ہیں جو سرکار کی سرپرستی سے اپنا ’مذہبی کاروبار‘ کامیابی سے چلا رہے ہیں اور سماج کا مالدار طبقہ غفلت سے کام لے رہا ہے۔ سیاسی پارٹیاں ووٹ بینک کو ملحوظ رکھتے ہوئے اُن کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ یہ سب کچھ عقیدہ ، مذہب کے نام پر پیش آرہا ہے۔ ان پر تنقید ارباب اقتدار یا سوسائٹی کے بڑے گوشوں کو بھلی نہیں معلوم ہوتی، جو ظاہر طور پر روحانی طاقت سے مرعوب رہتے ہیں، لیکن اس سے کہیں زیادہ سماجی طاقتیں ان کی غیرقانونی اور غیراخلاقی حرکتوں کے باوجود اُن پر پردہ ڈالتی ہیں۔
ram.puniyani@gmail.ocm