پروفیسر اپوروانند
ملک بھر میں آج کل چیف منسٹر بہار نتیش کمار اور پھر عیسائیوں پر مذہبی جنون پسندوں کے حملوں سے متعلق کافی چرچے ہیں اور ان دونوں پر غور کریں تو پتہ چلتا ہیکہ دونوں واقعات ایک مخصوص ذہنیت اور سوچ فکر کی عکاسی کرتے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہیکہ نتیش کمار نے ایک مسلم آیوش ڈاکٹر کا نقاب کھینچا جس کے نتیجہ میں اس خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ریاستی وزراء اور دنیا بھر میں اس منظر کو دیکھ رہے لوگ بھی سکتہ میں آگئے ، وہ سب یہی سوال کررہے تھے کہ آخر ہندوستان کی ایک بڑی ریاست کا چیف منسٹر اس قدر بدتمیزی اور بے حیائی کا مظاہرہ کس طرح کرسکتا ہے ؟
نتیش کمار نے اگرچہ اپنے رویہ کے ذریعہ بدتمیزی اور بے حیائی کامظاہرہ کیا لیکن بی جے پی اور خود نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کے قائدین اپنے چیف منسٹر کی بدتمیزی اور بے حیائی کی مدافعت میں دلائل پیش کررہے ہیں ۔ ان کی سب سے مضحکہ خیز دلیل یہ ہے کہ چیف منسٹر بہار کو مسلمانوں یا خواتین کامخالف نہیں کہا جاسکتا کیونکہ نتیش کمار نے ہمیشہ خواتین اور مسلمانوں کے حق میں کام کیا ۔ اس قسم کی دلیل پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر آپ نے میری مدد کی تو میں آپ کو اپنے ساتھ بدتمیزی اور بے حیائی کرنے کی اجازت اور حق دے دوں ۔ اگر نتیش کمار نے خواتین کو بااختیار بنانے اور مسلمانوں کی بہبود کیلئے کچھ کام کیا ہے تو کوئی احسان نہیں کیا ۔ بحیثیت چیف منسٹر وہ اُن کا فرض تھا ۔ کیا انتخابات میں نتیش کمار نے مسلم رائے دہندوں کے ووٹ حاصل نہیں کئے ؟ نتیش کمار کی تائید و حمایت میں دلائل پیش کرنے والوں کو اس کا جواب دینا چاہئے ۔ ایک بات ضرور ہے ایک باحجاب خاتون کا حجاب کھینچتے ہوئے نتیش کمار کا جو نازیبا ویڈیو منظرعام پر آیا وہ ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا میں وائرل ہوگیا ۔ وہ واقعہ آیوش ڈاکٹروں کے تقرر ناموں کی تقسیم کی تقریب میں پیش آیا ویسے بھی آج کل سرکاری ملازمتوں کا حصول خود ایک بڑی بات ہے ایک بڑا واقعہ ہے اور اکثر آپ نے دیکھا ہوگا جنھیں سرکاری ملازمت ملتی ہے وہ چیف منسٹرس یا وزیراعظم سے ایک قطار میں کھڑے ہوئے باری باری سے اپنے تقررنامے حاصل کرتے ہیں اور اس کے لئے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ یہ لوگ سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں میں تقررنامے ایسے تقسیم کرتے ہیں جیسے کوئی پرساد تقسیم کررہے ہوں ۔ اس طرح کی تقاریب یقینا ذلت آمیز ہے لیکن کوئی بھی اس بارے میںبات کرنے کی ہمت و جرأت نہیں کرتا ۔ اس کی کئی وجوہات ہیںجس میں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں ماضی میں شخصی وقار کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی حالات اس قدر ابتر ہوگئے ہیں کہ شخصی وقار اور احترام انسانیت کے تصور کو بالکل دھندلال کردیا گیا ہے ۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اقتدار پر براجمان لوگوں نے تو شخصی وقار کو کچل کر رکھدیا ہے اور دوسری طرف معاشرہ بھی عزت نفس سے محروم ہوچکا ہے جبکہ عزت نفس معاشرہ کی روح ہوتی ہے ۔
اب حالات اس قدر ابتر ہوچکے ہیں کہ حکومت جن کے ہاتھوں میں ہے اُنھیں ماں باپ تصور کیا جانے لگا ہے اور عوام اُن کی اولاد ہوگئی ہے۔ آپ کو بتادوں کہ ہندوستانی ماں باپ اپنی اولاد کے ساتھ من مانی کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اگر آپ یہ کہیں گے کہ اولاد کی اپنی مرضی ہے خودمختاری ہے اور شخصی وقار ہے تو لوگ حیرانی و پریشانی سے آپ کو عجیب و غریب انداز میں گھورنے لگیں گے ۔ موجودہ صورتحال پر کچھ یوں تبصرہ کرسکتے ہیں کہ آج کے حکمراں عوام کے مائی باپ بن گئے ہیں اس لئے حکمراں عوام کے ساتھ جیسا چاہئے سلوک کرسکتے ہیں۔
آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ نتیش کمار خاتون کانقاب کھینچ کر مسکرارہے تھے اور اُن کے قریب جو عہدیدار اور سیاسی قائدین تھے اُن کے چہروں پر بھی مسکراہٹ کھل گئی اگرچہ وہ واقعہ انتہائی شرمناک تھا جس سے ایک خاتون کو شدید نفسیاتی جھٹکہ لگا وہ صدمہ سے دوچار ہوگئی پر افسوس چیف منسٹر بہار نے اب تک اس پر کسی قسم کا اظہار ندامت نہیں کیا ، افسوس ظاہر نہیں کیا ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جے ڈی یو کے ترجمان یہ کہکر اس ناخوشگوار واقعہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ چیف منسٹر نتیش کمار ایک بزرگ شخصیت ہیں اور وہ یہی چاہتے تھے کہ خاتون کا چہرہ صاف صاف نظر آئے ۔ ایسے لوگوں سے یہ سوال کیا جانا چاہئے کہ وہ خاتون ڈاکٹر چیف منسٹر کو اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہتی تھی ورنہ وہ حجاب کیوں کرتی؟ کیا چیف منسٹر کو اپنی مرضی کے خلاف کسی کا چہرہ دیکھنے اور دکھانے کا حق ہے ؟ ویسے بھی نتیش کمار نے پہلی مرتبہ کسی خاتون سے بدتمیزی نہیں کی اس سے قبل بھی شہ نشین پر خواتین کے ساتھ نازیبا سلوک کرتے ہوئے دیکھے گئے ۔ ایک پولیس آفیسر کے مطابق اب چیف منسٹر نتیش کمار کے اردگرد ایک حفاظتی گھرا رکھا جارہا ہے کیونکہ وہ کب کونسی حرکت کر بیٹھیں گے کہا نہیں جاسکتا ۔ چیف منسٹر کا اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رہا ۔ ایسے میں نتیش کمار نے جو حرکت کی اسے ان کی صحت کے پیش نظر معاف کردینا چاہئے ۔ ایک بات ضرور ہیکہ نتیش کمار کا علاج کروایا جانا چاہئے، اگر علاج ہورہا ہے تو اس علاج کو چلنا چاہئے ، ہاں خرابی صحت کسی کے شخصی وقار کو پامال کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہوسکتے ۔ اب ایک اور اہم مسئلہ کی جانب آپ کی توجہہ مبذول کروانا چاہیں گے اور وہ ہے کہ ملک میں عیسائیوں پر حملوں کے واقعات میں بہت اضافہ ہوا خاص طورپر کرسمس سے پہلے جس طرح کے پرتشدد واقعات پیش آئے اس پر یہ سوال ضرور کیا جانا چاہئے کہ کیا عیسائی ہندوستانی شہری نہیں ہیں ؟ کیا ہندوستان میں نظام تعلیم کو مستحکم بنانے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے ؟
اگر ہم اپنے ملک کی آبادی پر غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ ملک میں عیسائی کی آبادی صرف 2.3 فیصد ہے اور ان لوگوں نے ملک کے کونے کونے میں تعلیمی اداروں کا جال پھیلایا ہے ۔ ہندوستانی نوخیز نسل کو زیور علم سے آراستہ کررہے ہیں ۔ اگر عیسائی آبادی پر غور کیا جائے تو گزشتہ دہوں میں بھی اُن کی آبادی 2.3 فیصد کے آس پاس ہی رہی ۔ ایسے میں مذہبی جنون پسندوں کی جانب سے یہ کہنا کہ ملک میں عیسائیوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کی بنیادی وجہ عیسائی مشنریز کی جانب سے تبدیلی مذہب کروانا ہے ۔ سارے ملک نے دیکھا کہ چھتیس گڑھ اور ملک کے دوسرے حصوں میں کس طرح عیسائیوں پر حملے کئے گئے ، اُن کی تقاریب کو تہس نہس کردیا گیا ہے ۔عیسائیوں کے دعائیہ اجتماعات میں خلل ڈالا گیا ۔ واضح رہے کہ فی الوقت 100 عیسائیوں کو صرف اس لئے جیلوں میں بند کردیا گیا کیونکہ ان پر فرقہ پرستوں نے الزام عائد کیا کہ وہ تبدیلی مذہب میں ملوث ہیں ۔ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ 2025 ء میں عیسائیوں کے خلاف 700 سے زائد پرتشدد واقعات پیش آئے اور ہندوتوا غنڈوں نے ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا اور اس میں کوئی حیرت نہیں کہ اکثر معاملات میں پولیس تشدد برپا کرنے والے غنڈوں کا ساتھ دیتی ہے ۔
کتنی شرم کی بات ہے کہ جبل پور کے ایک گرجا گھر میں بی جے پی کی لیڈر نے ایک قوت بصارت سے محروم خاتون پر حملہ کیا اور اسے سنگین عواقب و نتائج کی دھمکی دی اور وہ ایسی تقریب میں تھی جس میں نابینا بچے شریک تھے ۔ اس موقع پر بی جے پی لیڈر انجو بھارگو یہ الزام عائد کرتی ہیں کہ وہاں موجود لوگوں کا مذہب تبدیل کروایا جارہا تھا ۔ اس معاملہ میں پولیس کے کردار پر بھی حیرت ہوتی ہے اس نے بہت ہی نرم رویہ اختیار کیا ہوا تھا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی تو عیسائیوں کے دعائیہ اجتماع میں شرکت کرتے ہیں لیکن بی جے پی کے لیڈران عیسائیوں کے دعائیہ اجتماعات پر یہ کہتے ہوئے حملہ کردیتے ہیں کہ وہاں ہندوؤں کا مذہب تبدیل کیا جارہا ہے ۔ کیا کبھی ان لوگوں نے غور کیا ہے کہ آخر ہندو اپنا مذہب ترک کرکے عیسائیت کیوں قبول کررہے ہیں …؟
