نرملا سیتارمن کیلئے ناقص معاشی وراثت

   

میں نے مسز نرملا سیتارمن کی پارٹی ترجمان (2010ء) سے لے کر کامرس منسٹر (2014) سے وزیر دفاع (2017) اور پھر وزیر فینانس (2019) تک تیزی سے ترقی کی تعریف کی ہے۔ ہر بڑھتی منزل کے ساتھ انھوں نے رکاوٹ ختم کی ہے۔ اس سے مزید خواتین کو یہ ثابت کرنے کا حوصلہ ملنا چاہئے کہ وہ مَردوں کے مقابل کمتر قابل نہیں ہیں۔
کسی بھی فینانس منسٹر (ایف ایم) کی شروعات صاف ستھری تختی (معاشی حالت) کے ساتھ نہیں ہوتی ہے۔ اس تختی پر ہمیشہ بہت کچھ لکھا ہوتا ہے… بعض معاون باتیں، بعض بے ضرر نکات، بعض سردرد کی باتیں اور بعض رکاوٹیں! سابق معاشی مشیر اعلیٰ (چیف اکنامک اڈوائزر) ڈاکٹر اروند سبرامنیم نے شرح ترقی کے اعداد کے بارے میں شبہات ظاہر کئے ہیں اور ایک طرح سے اُس طریقہ کار کے دیرینہ نقادوں کے ساتھ اتفاق کیا، جو جی ڈی پی (مجموعی دیسی پیداوار) کو محسوب کرنے کیلئے بروئے کار لایا جاتا رہا ہے۔ اب ندامت کیلئے بہت دیر ہوچکی۔ اس سے قطع نظر شروعات یوں کی جائے کہ معاشی صورتحال کا ذہنی تحفظ کے بغیر جائزہ لیں ۔ حسب ذیل چند حقائق اور اشارات ہیں۔
افراط زر کم ہے۔ ہول سیل پرائس انڈیکس (WPI) کی شرح 3.07 فی صد اور کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) 3.05 فی صد ہے۔ کم افراط زر بہت کَسی ہوئی مانیٹری پالیسی اور اشیاء کی کمتر قیمتوں کے سبب ہیں، لیکن دونوں ہی تبدیل ہورہے ہیں۔ جب تک افراط زر کم ہے، حکومتی مصارف بڑھائے جاسکتے ہیں، لیکن کیا رقم دستیاب ہے؟
شرح ترقی مالی سال 2018-19ء میں تیزی سے سست ہوئی۔ چار سہ ماہی مدتوں میں یہ شرح 8.0، 7.0، 6.6 اور 5.8 فی صد رہی ہے۔ یہ ممکنہ طور پر اپریل۔ جون 2019ء میں مزید گھٹے گی۔ گراوٹ کا رجحان تاڑتے ہوئے آر بی آئی نے 2019-20ء کیلئے شرح ترقی کی پیش قیاسی کو گھٹا کر 7.2 فی صد کردیا ہے۔زرعی شعبہ 2018-19ء میں 2.9 فی صد کی شرح پر فروغ پایا۔ کاشتکاری کی اُجرتیں 2018ء میں 4.64 فی صد کی شرح پر بڑھیں۔ زائد از 10,000 کسان ہر سال خودکشی کرلیتے ہیں۔ مہاراشٹرا میں ہی 2019ء میں ابھی تک 808 کسانوں نے اپنی جانیں لے لی ہیں۔ کسان اب مزید تکلیف نہیں جھیل پائیں گے۔
سرمایہ کاری ترقی کا اصل محرک ہوتی ہے۔ 2018-19ء میں ایف ڈی آئی (راست بیرونی سرمایہ کاری) کی ہندوستان میں مشغولیت گزشتہ چھ سال میں پہلی مرتبہ کم ہوئی، 1 فی صد کمی کے ساتھ 44.37 بلین امریکی ڈالر رہی۔ گزشتہ سال گراس فکسڈ کیاپٹل فارمیشن 29.3 فی صد (موجودہ قیمتیں) رہا۔ پروموٹرز سرمایہ لگانے کیلئے غیررضامند ہیں کیونکہ دستیاب گنجائش کا بھرپور استفادہ کم ہوا ہے: مثلاً مینوفیکچرنگ میں اسے 76 فی صد درج کیا گیا۔بیرونی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں (FIIs) نے 2018-19ء میں رقم نکال لی۔ گزشتہ سال خالص ایف آئی آئی (منفی) 3587 ملین ڈالر رہا۔
مینوفیکچرنگ گراوٹ سے دوچار ہے۔ 2015-16ء اور 2018-19ء کے درمیان آئی آئی پی بڑھوتری کی شرحیں برائے مینوفیکچرنگ 2.8، 4.4، 4.6 اور 3.5 فی صد ریکارڈ کی گئی ہیں۔ اب گاڑیاں بنانے والوں نے فروخت میں انحطاط کی رپورٹ دی ہے اور پروڈکشن میں کٹوتی کردی۔مال تجارت کی اکسپورٹس کو این ڈی اے اقتدار اُس سطح (315 بلین ڈالر) سے جو 2013-14ء میں ریکارڈ کی گئی، اب 2018-19ء میں عبور کرپایا ہے۔ بدبختی سے ملکی صنعتوں کے تحفظ کا رجحان (protectionism) بڑھتا جارہا ہے اور ٹریڈ؍ ٹیرف کی جنگ دکھائی دینے لگی ہے۔ نیا مالی سال ناقص انداز میں شروع ہوا جبکہ مال تجارت کی برآمدات اپریل میں صرف 26 بلین ڈالر رہیں۔بینکنگ سیکٹر کی حالت ناقص ہے۔ مجموعی این پی ایز (غیرکارکرد اثاثہ جات) مارچ 2019ء کے ختم پر واجب الادا قرضوں کا 9.3 فی صد تھے اور 5,55,603 کروڑ روپئے کی بہت بھاری رقم اپریل 2014ء سے بینکوں نے عملاً معاف کردی ہے۔ دوسری میعاد میں وزیر فینانس بینکنگ شعبے کی پریشانیوں کیلئے یو پی اے حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے (جیسا کہ نرملا کے پیشرو کیا کرتے تھے) ۔
بینک ڈپازٹس 9.4 فی صد کی شرح پر بڑھ رہے ہیں، لیکن کریڈٹ (قرض) 13.1 فی صد کے حساب سے بڑھتا جارہا ہے۔ آر بی آئی (ریزرو بینک آف انڈیا) نے پالیسی ریٹ میں کٹوتی کردی اور وہ چاہتا ہے کہ بینکس بھی قرض لینے والوں کیلئے سود کی شرحوں میں کمی کردے۔ بینکوں کیلئے قرض لینے والوں کے مفاد میں شرحیں کم کرنا شاید ممکن نہیں تاوقتیکہ وہ ڈپازیٹرز کیلئے بھی شرحوں میں کٹوتی کرسکیں، جس سے ڈپازٹ کی بڑھوتری کو نقصان ہوگا۔ آسان حل تو کچھ نہیں ہے۔تجارتی خسارہ 2018-19ء میں (منفی) 176.42 بلین ڈالر رہا۔ یہ کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ (CAD) پر دباؤ ڈال رہا ہے، جو ڈسمبر 2018ء کو ختم ہونے والے نو ماہ میں (منفی) 51.8 بلین ڈالر تھا۔ سی اے ڈی ایسا عددی اشارہ ہے جس پر تجزیہ کاروں اور کرنسی کے تاجرین کی نظریں ہوتی ہیں۔ فینانس منسٹر کو بھی اس پر نظر رکھنا چاہئے۔ٹیکس وصولیات کو 2018-19ء میں بڑی ضرب لگی۔ نظرثانی شدہ تخمینے برائے 2018-19ء جو یکم فبروری 2019ء کو پیش کئے گئے، مذاق ثابت ہوئے۔ جملہ ٹیکس وصولیات 13,16,951 کروڑ روپئے رہے جبکہ نظرثانی شدہ تخمینے 14,84,406 کروڑ روپئے بتائے گئے، جو 1,67,455 کروڑ روپئے کا نقصان ہے۔ ظاہر ہے، فینانس منسٹر عبوری بجٹ تخمینہ جات برائے 2019-20ء پر اَٹکی نہیں رہ سکتیں اور انھیں بالکلیہ نئے تخمینے پیش کرنا پڑے گا۔ کوئی خوش کن شروعات نہیں ہے۔
این ڈی اے حکمرانی کے 5 سال میں مالیاتی خسارہ صرف 1.1 فی صد دبایا گیا۔ جنوری۔ مارچ 2019ء میں مصارف میں زبردست کٹوتیاں کی گئیں، ورنہ مالیاتی خسارہ 2018-19ء میں 3.4 فی صد نہیں بلکہ 4.1 فی صد ہوتا۔ اگر سرکاری خزانہ کی مضبوطی حکومت کا بدستور اہم مقصد برقرار رہا تو فینانس منسٹر کو ریونیو (نقصان کے بغیر زیادہ) اور مصارف (ناگواری کے بغیر کمتر) کے درمیان عمدگی سے توازن قائم کرنا ہوگا۔
بے روزگاری عوام کا سب سے زیادہ فکرمندی کا معاملہ رہا ہے، پھر بھی اکثر ریاستوں میں ووٹروں نے بی جے پی کو ووٹ دے کر اقتدار پر واپس لایا۔ یہ مسئلہ حکومت کو پریشانی میں ڈالنے دوبارہ اُبھرے گا۔ وزیر فینانس کا پہلا بجٹ معاشی ترقی کو بحال کرنے اور نوکریاں پیدا کرنے کیلئے اس کی ممکنہ گنجائش کے بل بوتے پر دیکھا جائے گا۔ ایمپلائمنٹ کے محاذ پر فینانس منسٹر کو مدرا لونس، اوبر ڈرائیورس اور ای پی ایف او اندراجات کے اعداد و شمار کا حوالہ دینے کی طرف مائل ہونے سے گریز کرنا چاہئے۔ بے روزگاری کی واحد معتبر کسوٹی Periodic Labour Force Survey ہے۔ فینانس منسٹر کو یاد رکھنا چاہئے کہ شرح بے روزگاری 6.1 فی صد ہے جو 45 سال کی اعظم ترین شرح ہے۔مسز نرملا سیتارمن کو موجودہ معاشی صورتحال وراثت میں ملی ہے۔ وہ ہماری نیک تمناؤں کی مستحق ہیں۔