پانچ اشیاء سستے، پانچ درجن مہنگے ۔ معیشت کو بحال کرنے بی جے پی کا نرالا انداز
نئی دہلی۔ یکم فروری (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان کی بدترین معاشی صورتحال کے درمیان مودی حکومت نے مالی سال 2020-21ء کیلئے آج مرکزی بجٹ پیش کیا جس کے تعلق سے سارے ملک کو بہت امیدیں وابستہ تھیں۔ کسی بھی بجٹ کے اچھے یا خراب ہونے کا اشارہ اسٹاک مارکٹ میں ہونے والی تبدیلی سے مل جاتا ہے۔ جیسے ہی وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے لوک سبھا میں بجٹ پیش کیا، وزیراعظم نریندر مودی نے اسے ’ویژن اور ایکشن والا بجٹ‘ قرار دیا۔ حالانکہ بجٹ میں انتہائی بڑھی ہوئی بیروزگاری کو دور کرنے کے تعلق سے کوئی ٹھوس تجاویز نہیں، نوٹ بندی کے تین سال بعد بھی اس کے اثرات محسوس کئے جارہے ہیں، جی ایس ٹی کے ناقص عمل سے تاجر برادری پریشان ہے، اس پس منظر کے باوجود بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے کھوکھلا بجٹ پیش کیا ہے اور بجٹ پیش کرنے کے ساتھ ہی ممبئی اور دہلی کے حصص بازار میں بری طرح گراوٹ آئی۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسٹاک مارکٹ میں کراش لینڈنگ ہوگئی۔ مرکزی بجٹ ترقی کو بڑھاوا دینے والے اقدامات اور مالیاتی ڈسپلین سے متعلق مارکٹ کی توقعات پوری کرنے میں ناکام رہا جس کے نتیجہ میں زائد از ایک دہے میں پہلی بار ایک دن میں سنسیکس (حساس اشاریہ) میں زبردست گراوٹ آئی۔ نرملا نے موجودہ مالی سال کیلئے 3.8 فیصد کا خسارہ بجٹ پیش کیا جو قبل ازیں جی ڈی پی کا 3.3 فیصد تھا۔ 30 شیئرس والے بامبے اسٹاک ایکسچینج کا حساس اشاریہ ابتداء میں 1,275 پوائنٹس نیچے چلا گیا اور آخر میں یہ نقصان 987.96 پوائنٹس درج ہوا جو مجموعی پوائنٹس 30,735.53 سے 2.43 فیصد کم ہے۔ 24 اکتوبر 2008ء کو اس طرح کی بڑی تنزلی دیکھنے میں آئی تھی جو 1,070.63 پوائنٹس درج ہوئی تھی اور یہ مجموعی طور پر چوتھی سب سے بڑی گراوٹ ہے۔ انہی خطوط پر 50 شیئرس والے نیشنل اسٹاک ایکسچینج یا نفٹی میں 300.25 پوائنٹس کی کمی ہوئی اور این ایس ای 11,661.85 پوائنٹس پر بند ہوا۔ اس طرح 2.51 فیصد کا نقصان ہوا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انکم ٹیکس کے سلاب میں تبدیلیوں نے ٹیکس بچت والے سرمایہ کے مواقع میں گراوٹ کے اندیشے پیدا کردیئے ہیں۔ اسٹاک مارکٹ میں سب سے زیادہ آئی ٹی سی کے شیئرس میں درج ہوئی۔ ایل اینڈ ٹی، ایچ ڈی ایف سی، ایس بی آئی، او این جی سی، آئی سی آئی سی آئی بینک اور انڈس آئی این ڈی بینک کو 5.98 فیصد تک نقصان ہوا۔
طویل تقریر کے سواء کچھ ٹھوس نہیں : راہول
دریں اثناء اپوزیشن نے بجٹ کے نقائص اجاگر کرتے ہوئے حکومت کی ناکامیاں بتائی ہیں۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے کہا کہ اس بجٹ میں طویل تقریر کے سواء کچھ بھی ٹھوس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزگار پر بجٹ میں کچھ بھی نہیں کہا گیا اور معیشت میں بہتری کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے گئے۔ لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ اس بجٹ میں صرف بڑی بڑی باتیں ہیں جن سے حقیقت کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ کانگریس کے دیگر لیڈروں میں بالخصوص سابق وزیر فینانس پی چدمبرم نے بجٹ کا باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کیلئے بدحال معیشت کو بحال کرنے کیلئے زیرموقع تھا جو اس نے گنوا دیا ہے۔ نرملا سیتا رامن کے پیش کردہ بجٹ میں معیشت کے نازک پہلوؤں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔
دیوالیہ حکومت کا دیوالیہ بجٹ : اکھیلیش
صدر ایس پی اکھیلیش یادو نے اس بجٹ کو دیوالیہ سرکار کا دیوالیہ بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ گرتی معیشت ، بے تحاشہ بڑی ہوئی مہنگائی اور روزگار کے بارے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کی بات بجٹ تجاویز میں نہیں ہے۔خراب معیشت کو دیکھتے ہوئے عوام کو بجٹ سے کافی اُمیدیں تھیں لیکن لوگوں کو مایوسی ہاتھ لگی ہے۔اس بجٹ سے غریبوں ، کسانوں اور نوجوانوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے۔
این آر آئیز کو وطن میں ٹیکس دینا ہوگا
اس بجٹ میں غیرمقیم ہندوستانیوں سے متعلق ایک نقصان دہ تجویز ہے جس کے مطابق این آر آئی جس پر کسی بیرونی ملک میں ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا ، اسے ہندوستان میں ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ ریوینیو سیکریٹری راجئے بھوشن پانڈے نے بجٹ کے بعد بریفنگ میں کہا کہ بعض لوگ کسی بھی ملک کے مقیم باشندے نہیں ۔ وہ وقفہ وقفہ سے مختلف ملکوں میں قیام کرتے ہیں ۔ ایسے ہندوستانی شہری کو اس کی عالمگیر آمدنی پر ٹیکس دینا ہوگا۔
کیا مودی کو نئے بجٹ سے خوشی ہوگی؟
٭ وزیراعظم نریندر مودی نے ہفتہ کو وزیر فینانس نرملا سیتارامن کے لوک سبھا میں پیش کردہ بجٹ 2020-21ء کے تعلق سے یوں تو اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ ویژن اور ایکشن والا بجٹ ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی وزیراعظم نے اپنے وزیر فینانس کے پیش کردہ بجٹ پر تنقید کی ہو۔ تاہم، ہفتہ کو بجٹ تجاویز پیش ہونے کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں ایسی گراوٹ آئی جو بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ این آر آئیز کمیونٹی نئی ٹیکس تجویز پر فکرمند ہوگئی ہے۔ کیا مودی واقعی خوش ہیں؟
