نسلِ نوکو انٹر نیٹ گیم کی علت سے بچائیں…!

   

’’ فریدہ، میں ایک پروفیشنل کو تمہارے پاس بھیج رہا ہوں‘ پلیز اُس کی مدد کرو۔‘‘ یہ میرے ایک نہایت ہی قریبی دوست کا فون تھا جو کہ شہر کے جانے مانے آرکیٹکٹ ہیں۔ انہوں نے مجھ کو بتایا کہ یہ 25 برس کا نوجوان دیپک اُن کی زیر نگرانی Internship کررہا تھا جلد ہی معلوم ہوا کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی نظریں بچاکر سیل فون کو گود میں رکھ کر گیم (game) کھیلتا ہے۔ انہوں نے جب اُس سے اس عادت کے بارے میں پوچھ تاچھ کی تو وہ کہنے لگا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی خود کو گیم کھیلنے سے روک نہیں پاتا۔ انہوں نے دیپک سے کہا کہ وہ آفس کے اوقات میں فون اُن کی میز پر رکھ دے اور گھر جاتے وقت لے جائے۔ اس طرح وہ اپنی عادت کے سامنے ہار نہ مانے گا۔ اسی دوران انہیں دیپک کے والدین سے معلوم ہوا کہ گھر میں بھی فون اور اپنے کمپیوٹر پر گیم کھیلتا رہتا ہے۔ انہیں یہ جان کر بھی حیرت ہوئی کہ اُس نے والدین سے اس بات کو چھپاکر رکھا تھا، وہ فائنل کا امتحان نہ دے پایا تھا کیونکہ حاضری کم تھی، وہ ہاسٹل میں رہتا تھا۔ رات بھر وہ گیم کھیلتا اور تھک کر سوجاتا ، اس طرح کالج کو ناغہ کرتا۔ افسوس کہ اس کا ایک سال ضائع ہوگیا۔ قارئین! ہم جانتے ہیں کہ ایسے کئی لوگ ہیں جو مہ نوشی کی عِلت کا شکار ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں جنہیں نشہ کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ اس کے بناء رہ نہیں سکتے۔ کسی بھی قیمت پر وہ نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتے ہیں اور نشہ میں دُھت رہتے ہیں۔ لیکن آج کی نئی پیڑھی ایک ایسی عِلت addiction کا شکار ہے جس کے بارے میں ہم نے خواب و خیال تک میں سوچا نہ تھا، اور یہ ہے انٹر نیٹ پر کھیلی جانے والی گیم ۔ ویسے تو کافی گیم نیٹ پر موجود ہیں لیکن جو سب سے زیادہ نقصاندہ ہے اس کا نام ہے ’’ پب جی ‘‘ (PUBG)۔ Player Unknown’s Baltle Ground اس کھیل میں جب کھلاڑی آن لائین لاگ اِن کرتا ہے تو اُس وقت اُسی کی طرح اور کئی نیٹ پر اُس کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔ یہ سب ایک جزیرے پر پہنچتے ہیں وہاں انہیں اس کھیل کا اسلحہ اور ہتھیار کو ڈھونڈ کر نکالنا ہوتا ہے اور اپنے دشمنوں کو چُن چُن کر مارنا ہوتا ہے، اور جو آن لائن کھلاڑی اپنے تمام دشمنوں کو ماردینا وہ کامیاب قرار دیا جاتا ہے اور اس کو ’’ چکن ڈِنر ‘‘ یعنی مُرغ کھانے کو ملتاہے۔ اُس کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا اور وہ زور سے چلا اُٹھتا ہے کہ وہ جیت چکا ہے۔جب میں دیپک سے اس گیم کے بارے میں بات چیت کررہی تھی تو اُسے نے بتایا کہ یہ ایک ایسا نشہ ہے جو سرچڑھ کر بولتا ہے، وہ سوچتا کہ صرف کچھ وقت کیلئے یہ گیم کھیلے گا لیکن جلد ہی اس میں کچھ اس طرح غرق ہوجاتا ہے کہ نہ کھانے کا ٹھکانہ اور نہ ہی سونے کا، اور کھیل مکمل ہونے کے بعد جب اسکرین سے نظر ہٹاتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ رات بیت چکی اور آسمان پر طلوع آفتاب کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر اس قدر تھک جاتا کہ بستر پر ڈھیر ہوجاتا۔ پریشان کُن بات تو یہ ہے کہ آجکل گیارہ بارہ برس کے بچے بھی انٹرنیٹ گیم کا شکار ہیں۔ اسکول کی پڑھائی پر دھیان نہیں دے پاتے۔ نیند کی کمی سے سر درد ہوتا ہے۔ اپنی فیملی کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے ماہرین نفسیات کی جیسے تھراپسٹ اور کونسلر کی جو اُن کی مدد کرتے ہوئے انہیں اس عِلت سے چھٹکارا دلائیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہم شروع ہی سے اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں ۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ وقت کیسے گذارتے ہیں۔ کمپیوٹر پر پراجکٹ کا کام ہوتا ہے یا پھر گیم کھیلی جارہی ہے۔ اُن کے کھانے اور سونے پر نظر رکھیں، اور جہاں تک ہو اسکول جانے والے بچوں کو اسمارٹ فون نہ دلائیں۔ اور اگر ہو تو اتنا ضرور کریں کہ رات کو وہ اپنا فون آپ کو دے دیں۔ ہوشیار و باخبر رہیں۔