نسل پرستی پر بھی میچ فکسنگ جیسی سزا دیں، ہولڈر

   

مانچسٹر: ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے کپتان جیسن ہولڈر نے مطالبہ کیا ہے کہ اس کھیل میں نسل پرستی کو بھی ویسے ہی سنجیدگی سے لینا چاہیے جیسا کہ میچ فکسنگ اور ڈوپنگ کو لیا جاتا ہے۔ ان کے بقول انسداد نسل پرستی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ ویسٹ انڈیز پاکستانی کرکٹ ٹیم کے 28 سالہ آل راؤنڈر اور کپتان جیسن ہولڈر نے کہا کہ نسل پرستانہ عمل یا جملے کسنے پر بھی سخت سزا دی جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بھی ممنوعہ ادویات لینے اور میچ فکس کرنے جیسے جرائم سے کم ہر گز نہیں ہے۔۔ان کا کہنا ہے کہ نسلی منافرت کا مظاہرہ کرنے والے کرکٹرز کو بھی ڈوپنگ اور میچ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں جیسی سخت سزا دینا چاہیے، اگر ہمارے کھیل میں اس قسم کی چیزیں موجود ہوں تو پھر ان سے ایک جیسے ہی انداز میں نمٹنا چاہیے۔واضح رہے کہ آئی سی سی قوانین کے تحت اگر کوئی پلیئر دوران میچ انسداد نسل پرستی قانون کی 3 بار خلاف ورزی کرے تو اس پر تاحیات پابندی بھی عائد ہوسکتی ہے۔بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے انسداد نسل پرستی کوڈ کے تحت نسل پرستی کے باعث کسی کھلاڑی پر عمر بھر کی پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے۔
تاہم ابھی تک نسل پرستی کا مظاہرہ کرنے پر کسی بھی کھلاڑی کو یہ سزا نہیں دی گئی ہے۔جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے دوران پاکستانی وکٹ کیپر بلے باز سرفراز احمد کو سیاہ فام آل راؤنڈر ایندیلے پِھلکوایو کے خلاف نسل پرستانہ کلمات ادا کرنے پر انہیں چار میچوں کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اس طرح کی مثالیں ماضی میں کئی مرتبہ خبروں کی زینت بھی بنی چکی ہیں۔ اس میں سن دو ہزار آٹھ میں بھارتی سابق سپنر ہربھجن سنگھ کا وہ مبینہ نسل پرستانہ جملہ بھی شامل ہے، جو انہوں نے سابق آسٹریلوی کھلاڑی اینڈریو سائمنز کے لیے بولا تھا۔امریکا میں پولیس کی زیر حراست افریقی نڑاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف ایک تحریک شروع ہو چکی ہے۔ اسی تحریک کے بعد نسل پرستی کے خاتمے کے بارے میں ایک نئی بحث بھی جاری ہے۔حال ہی میں ویسٹ انڈیز کے سابق کھلاڑی ڈیرن سامی نے بھی کہا تھا کہ انڈین پریمیئر لیگ کے دوران انہیں ڈریسنگ روم میں ایسے نام سے پکارا جاتا تھا، جو مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی ایک جذباتی ویڈیو میں کہا تھا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ بھارتی کرکٹرز انہیں اس نام سے پکارتے ہیں تو انہیں شدید افسوس ہوا۔ تاہم اس ویڈیو میں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں کس نام سے پکارا جاتا تھا۔