ایس سدھاکر ریڈی
امریکہ میں نسل پرست سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک افریقی نژاد امریکی جارج فلائیڈ کے غیر انسانی قتل کے فوری بعد سارے امریکہ میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ چل پڑا۔ احتجاجی مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا گیا، آنسو کیس کے شل برسائے گئے، کئی مقامات پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے، 13 مظاہرین کی موت ہوئی اور 40 شہروں میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ احتجاجی مظاہروں کی شدت اور مظاہرین کی برہمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاوز کے زیر زمین بنکر میں چھپنا پڑا کیونکہ انتہائی برہمی مظاہرین وائٹ ہاوز کے قریب پہنچ گئے تھے۔ جارج فلائیڈ جس وقت سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں موت کی جانب آگے بڑھ رہا تھا اس وقت مینی پولیس کے دیگر تین عہدہ دار اس کی حوصلہ افزائی کررہے تھے۔ جہاں تک ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے اس واقعہ پر ردعمل کا سوال ہے انہوں نے درندگی کے اس واقعہ کی مذمت کرنے کی بجائے بہت ہی معمولی انداز میں اس پر تبصرہ کیا اور کہا کہ یہ ایک بدبختانہ واقعہ ہے۔ ٹرمپ نے غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ مظاہرین کو فوج استعمال کرتے ہوئے کچل دیا جائے گا۔ انہوں نے ایک مرحلہ پر یہ بھی کہا کہ جیسے ہی لوٹ مار کا آغاز ہوگا مظاہرین پر فائرنگ کردی جائے گی۔ ٹرمپ کے ان ریمارکس کا مزید برا اثر ہوا اور مظاہرین کے لئے اشتعال کے باعث بن گئے۔ ان کے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ تاہم امریکی وزیر دفاع نے ٹرمپ کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال سے انکار کیا۔ یہاں تک کہ امریکی فوجی سربراہوں نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ وہ امریکی دستور کے وفادار ہیں ٹرمپ کے نہیں۔
نسل پرستی کیا ہے؟
جلد کے رنگ اور اس کی بنیاد پر برتا جانے والا امتیاز نسل پرستی کی بدترین قسم ہے۔ اکثر سیاہ اور دوسری رنگت کی جلد کے حامل لوگوں کے ساتھ امریکہ جیسے ملک میں امتیاز برتا جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہندوستان میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ جہاں تک افریقی ۔ امریکی شہریوں کے ساتھ نسلی منافرت کے واقعات کے رونما ہونے کا سوال ہے یوروپی سفید فام باشندوں نے ہمیشہ سے ان سیاہ فام باشندوں کا تعاقب کیا، انہیں نسل پرستی کا نشانہ بنایا، یہاں تک کہ ان کالوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا۔ ان گوروں نے سیاہ فام باشندوں کو غلام بنایا اور بازاروں میں انہیں فروخت کرتے رہے۔ ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی ملکوں کو کالونیوں میں تبدیل کیا گیا۔ انگریزوں کی نسل پرستی اور سیاہ فام باشندوں سے نفرت کا اندازہ ہندوستان میں ان کے قبضے کے دوران پیش آئے واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں برطانوی کلبس کے مالکین اکثر اپنے کلبوں کے باہر ایسے بورڈس آویزاں کیا کرتے تھے جس پر کچھ اس طرح کی تحریر ہوتی ’’ہندوستانی اور کتوں کو کلب میں داخلے کی اجازت نہیں‘‘ صرف اسی طرح کے واقعات نہیں بلکہ خود گاندھی جی کو بھی سفید فام باشندوں کی جانب سے نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب وہ افریقہ میں تھے تب انہیں ٹرین کے فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ سے صرف اس لئے ڈھکیل دیا گیا کیونکہ ان کے جلد کا رنگ سفید نہیں تھا۔ اس ڈبے میں سفید فام باشندے سفر کررہے تھے اور محکمہ ٹرین بھی سفید فام حکام کے تحت کام کررہا تھا۔ اسے ہی نسلی امتیاز کہا جاتا ہے۔
ہندوستان میں بھی ذات پات کی بنیاد پر بعض مخصوص ذاتوں کی اجارہ داری کا سلسلہ جاری ہے جو دلتوں کے ساتھ امتیاز برتتے ہیں۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ دلتوں اور اقلیتوں کو تحفظ گاو کے نام پر ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
15 ویں صدی میں ہندوستان ایک دولت مند ملک تھا۔ بعض یوروپی تاجر ہندوستان کا سفر کرنے کے لئے نکل پڑتے اور امریکہ کی طرف روانہ ہو جاتے اور سمجھتے کہ وہ ہندوستان ہے۔ اس وقت ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار عالمی مجموعی پیداوار کا 23 فیصد حصہ تھی۔ یہ تاجر و مسافر ہندوستان پہنچنے کے ارادہ سے امریکہ پہنچ جایا کرتے۔ غلطی سے امریکہ پہچنے والے کولمبس نے ایک اور فاش غلطی کرتے ہوئے امریکیوں کو ہندوستانی قرار دیا اور جب اسے پتہ چلا کہ وہ ہندوستانی نہیں تب یوروپی باشندوں نے انہیں ریڈ انڈینس کہنا شروع کردیا چونکہ امریکہ رقبہ کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے اور اس کی زمین بھی زرخیز ہے اور کم آبادی کا حامل ملک ہے، ایسے میں کئی یوروپی باشندے اس کی طرف راغب ہوئے اور ان یوروپی باشندوں کی امریکہ ہجرت کا سلسلہ دو سے تین صدیوں تک جاری رہا۔ ایسے میں یوروپی باشندے امریکہ ہجرت کرنے والے پہلے مہاجرین تھے۔ ویسے بھی صنعتیانے کے عمل یا صنعتی انقلاب سے قبل یوروپ میں ہر طرف غربت کا بسیرہ تھا۔ جیسے ہی دوسرے براعظموں کے لوگوں نے دیکھا کہ یوروپی باشندے امریکہ منتقل ہو رہے ہیں ان لوگوں نے بھی امریکہ پہنچنے کا سلسلہ شروع کردیا لیکن ان کی تعداد یوروپی باشندوں کی تعداد سے کم تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ سفید فام نہیں تھے ان کی امریکہ ہجرت کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ حد تو یہ ہے کہ چینی باشندوں کی ہجرت پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ان پر کئی پابندیاں لگائی گئیں جو امریکہ کے حقیقی باشندے تھے انہیں قتل کیا گیا اور ان کی قابل کاشت زمینوں پر قبضے کرلئے گئے۔ جنگلات کا صفایا کردیا گیا۔ اب ان زمینوں پر کام کی جب بات آئی تو پھر افریقی باشندوں کو غلام بناکر یہاں لایاگیا اور وہی غلام آج کے افریقی ۔ امریکی باشندے ہیں۔
انسانیت نواز ابراہم لنکن جب امریکہ کے صدر بنے انہوں نے غلامی کے نظام کا خاتمہ کردیا لیکن امریکہ کی جنوبی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے اکثر زمینداروں نے اس منسوخی سے اتفاق نہیں کیا اور بغاوت کردی، نتیجہ میں خانہ جنگی چھڑ گئی۔ جن لوگوں نے غلامانہ نظام کی تائید و حمایت کی تھی اس خانہ جنگی میں انہیں شکست فاش ہوئی، غلاموں کو آزادی ملی، ہر غلام کو 40 ایکڑ اراضی اور ایک خچر دیا گیا۔ اس سے سیاہ فام باشندوں کو معاشی اور سماجی طور پر مستحکم ہونے کا موقع ملا ساتھ ہی انہیں شادی اور حصول جائیداد کے حقوق بھی دیئے گئے۔ کچھ مدت کے بعد ابراہم لنکن کا قتل ہوگیا۔ نئے صدر نے ان کی بعض پالیسیوں کو تبدیل کردیا۔ جو اراضیات غلاموں کو دیئے گئے تھے وہ واپس لے لی گئیں۔ اس سے یہ ہوا کہ کئی غلام معاشی اور سماجی طور پر کمزور ہوگئے اور حقوق سے محروم ہوئے۔ اسی دوران دنیا کے کونے کونے سے لوگوں کا امریکہ آنا شروع ہوا جن میں یوروپین ۔ امریکی، عرب ۔ امریکی، چینی ۔ امریکی، جاپانی ۔ امریکی، ہندوستانی ۔ امریکی اور افریقی ۔ امریکی شامل ہیں۔ امریکہ کی جملہ آبادی 33 کروڑ ہے جس میں سے افریقی۔ امریکیوں کی آبادی 14 فیصد بتائی جاتی ہے۔ امریکہ ایک عجیب و غریب ملک ہے جہاں دنیا کے ہر ملک کے لوگ مقیم ہیں۔ جیسے ہندوستان میں گوڈسے گاندھی سے نفرت کرتے ہیں امریکہ میں بھی ایسے بنیاد پرست ہیں جو ابراہم لنکن اور ان کی پالیسیوں سے نفرت رکھتے ہیں اور ایسے بھی لوگ ہیں جو سیاہ فام باشندوں سے بغض رکھتے ہیں۔ اسی طرح جس طرح ہندوستان میں کچھ عناصر دلتوں، مسلمانوں اور عیسائیوں سے نفرت رکھتے ہیں۔ امریکہ میں کوکلکس کلین اسی طرح ہے جس طرح ہندوستان میں ہندو بنیاد پرست گروپ ہیں جن کا کام دلتوں، مسلمانوں اور عیسائیوں وغیرہ سے نفرت کرتے ہوئے انہیں قتل کرنا ہے۔ ویسے بھی مودی اور ٹرمپ کے درمیان بھی دوستی کا بندھن بہت مضبوط ہے۔ ٹرمپ ایک فاشسٹ ہے اور افریقی امریکہ و ہندوستانی ان کا نشانہ ہیں۔ ہندوستان میں مودی بھی ہندوتوا کا بنیاد پرست ہیں اور ان کی تائید کرنے والے عناصر دلتوں، مسلمانوں، عیسائیوں، قبائیلیوں اور پسماندہ طبقات وغیرہ کو نشانہ بناتے ہیں۔