نصابی کتب میں آر ایس ایس کا ڈاکہ

   

رام پنیانی
قوم پرستی پھر ایک بار مباحث کا معاملہ بن چکی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ہم نے دیکھا کہ مختلف افراد کو برسراقتدار حکومت پر تنقید کی پاداش میں قوم دشمن قرار دیا گیا ہے، ہم نے جے این یو پر اس بنیاد پر حملہ دیکھا کہ یہ قوم دشمنوں کو تیار کرنے کی آماجگاہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ’ہندو قوم پرستی‘ سے تعلق رکھنے والے خود کو قوم پرستوں کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں۔ اس میں پوشیدہ عیاری یہ ہے کہ وہ لفظ nation (قوم) سے قبل ’ہندو‘ کا سابقہ چھپاتے رہے ہیں۔ یہ وہی سابقہ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہندوستان کو قوم بنانے کے عمل میں کہیں بھی حصہ دار نہ تھے۔ ہندوستانی قوم کی تعمیر کئی مرحلوں کا عمل رہا ہے۔ ایک طرف سامراجی حکمرانی کی مخالفت کرنا تھا اور ساتھ ہی دوسری طرف جمہوری اقدار کی طرف سفر بھی تھا۔

یہ مسئلہ پھر ایک بار اُبھر آیا جب سنت تکدوجی مہاراج ناگپور یونیورسٹی نے اپنے سال دوم بی اے ہسٹری کورس میں مضرت رساں تبدیلی لائی ہے۔ اس کتاب میں قبل ازیں ہندوستان میں فرقہ پرستی کے عروج پر چیاپٹر تھا۔ اس کو ہٹا کر ’آر ایس ایس کی تاریخ اور تعمیر قوم میں اس کا رول‘ کا باب شامل کردیا گیا ہے۔ جیسا کہ ترجمان یونیورسٹی نے بتایا ہے: ’’قوم پرست مکتب فکر بھی ہندوستانی تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح سنگھ کی تاریخ بھی قوم پرست مکتب فکر کا حصہ ہے۔ لہٰذا، آر ایس ایس کا تعارف کورس میں شامل کیا گیا ہے۔‘‘
دوسری طرف ترجمان اسٹیٹ کانگریس سچن ساونت نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا: ’’ناگپور یونیورسٹی کو آر ایس ایس اور تعمیر قوم کا حوالہ کہاں ملے گا؟ یہ تو نہایت تفرقہ پسند قوت ہے جس نے انگریزوں کے ساتھ گٹھ جوڑ میں تحریک آزادی کی مخالفت کی، ترنگا کو 52 سال تک بدشگون کہتے ہوئے نہیں لہرایا، دستور کی جگہ منوسمرتی کو رکھنا چاہا، نفرت پھیلاتا ہے۔‘‘

ہندوستان ایک قوم بننے کے اجزاء کیا رہے ہیں؟ سابقہ مملکتوں کی جگہ سامراجی حکمرانی نے لے لی تھی۔ سامراجی مرحلہ میں بڑے معاشی اور سماجی تبدیلیاں دیکھنے میں آئے۔ یہ تبدیلیوں کا تعلق ٹرانسپورٹ (ریلوے)، مواصلات (پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف)، ماڈرن ایجوکیشن (اسکولس اور یونیورسٹیاں)، فری پریس یا آزاد صحافت اور ماڈرن جوڈیشل سسٹم و دیگر سے ہے۔ ان تبدیلیوں کے ساتھ سماجی تعلقات قائم ہونے لگے۔ ’ذات پات کے ڈھانچے کا آہنی فریم‘ ٹوٹنے کا عمل شروع ہوا۔ خواتین کے ماتحت درجہ کو چیلنج کیا گیا جیسا کہ ساوتری بائی پھولے نے لڑکیوں کی تعلیم کیلئے اسکولس شروع کئے۔ صنعت کاروں، ماڈرن بزنس مین کا نیا طبقہ اور تعلیم یافتہ طبقات سماج میں اُبھرنے لگے۔

ان تبدیلیوں کا سیاسی اظہار کئی جگہوں پر ظاہر ہوا۔ اس سیاسی عمل کا بڑا اظہار انڈین نیشنل کانگریس کی تشکیل ہے۔ ذات پات میں عدم مساوات کو توڑنے کی تحریکات کو جیوتی راؤ پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر سے جہت ملی۔ ورکرس کی امنگیں یونینوں میں ظاہر ہوئیں جس کی قیادت نرائن میگھاجی لوکھنڈے اور کوم سنگارا۔ویلو نے قیادت کی۔ بھگت سنگھ جیسے انقلابی سوشلسٹ سوسائٹی کا خواب لے کر سامراجی حکمرانی کے خلاف سینہ سپر ہوئے۔

تعمیر قوم کے اس عمل کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ خاص طور پر سوسائٹی، ورکرس، خواتین، تعلیم یافتہ طبقات، بیوروکریٹس اور صنعت کاروں میں اُبھرنے والے ان طبقات کی سماجی اُمنگوں کا اظہار ہوسکے۔ اور دوسرا سیاسی اظہار جیسے برطانوی سامراجوں کے خلاف جدوجہد۔ ان سماجی و سیاسی تبدیلیوں کی مخالفت کیلئے زوال پذیر طبقات جیسے بادشاہوں اور زمینداروں اور اُن کے ساتھی لوگوں کے ایک گوشہ نے اپنی تنظیموں کو میدان میں اُتارا۔ ان تنظیموں کے دو پہلو تھے۔ ایک یہ کہ ذات پات اور جنس کی بنیاد پر امتیاز میں تغیر سے متعلق سماجی تبدیلیوں کی مخالفت کی جائے اور دوسرے یہ کہ مذہب کے نام پر قوم پرستی کو بڑھاوا دیا جائے۔ وہی ہیں جو مخالف برطانیہ قومی تحریک کے مخالف تھے۔ یہ زوال پذیر طبقات نے اپنی قوم پرستی کے سابقہ کے طور پر مذہب کا استعمال کیا۔ اُن کے مقاصد خالصتاً سیاسی تھے۔ اُن کا سیاسی ایجنڈا رہا کہ خاندانی توارث کے پیدائشی اقدار کا تحفظ کیا جائے جیسا کہ جاگیرداری کے دور میں ہوتا رہا۔
ایک طرف مسلم لیگ اور دوسری طرف ہندو مہاسبھا۔ آر ایس ایس نے ترتیب وار مسلم اور ہندو قوم پرستی کے مفاد میں خود کو پیش کیا۔ مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کے معاملے میں مذہب صاف طور پر نمایاں تھا؛ مگر آر ایس ایس کے معاملے میں مذہب اُن کی قوم پرستی کا کلیدی حصہ ہے۔ ساورکر نے ذات پات پر مبنی نظام کے خلاف کہیں کہیں کام کیا، لیکن زیادہ یہ تنظیمیں ذات پات اور جنس پر مبنی ترقیاتی بدلاؤ سے متعلق سماجی تبدیلیوں سے بالکلیہ الگ تھلگ رہے۔
جہاں تک تحریک آزادی کا معاملہ ہے، تنظیموں کی حیثیت سے وہ کبھی کسی مخالف انگریز تحریک کا حصہ نہیں رہے۔ انفرادی طور پر ساورکر انڈمان بھیجنے سے قبل مخالف انگریز تھے، لیکن اُن کی رہائی کے بعد وہ بدلے ہوئے شخص ہی دکھائی دیئے۔ اسی طرح ڈاکٹر کے بی ہیڈگوار بانی آر ایس ایس نے انفرادی حیثیت سے 1930ء کی تحریک شہری نافرمانی میں حصہ لیا، لیکن وہ عمل جیل میں ہم خیال ورکرس کو تلاش کے مقصد سے تھا۔ جہاں تک آر ایس ایس کا معاملہ ہے، گولوالکر نے ہدایات دے رکھی تھیں کہ انگریزوں کے امن کو بگاڑا نہ جائے۔

’ہندوستان چھوڑو‘ تحریک کے بارے میں دوسرے آر ایس ایس سرسنگھ چالک ایم ایس گولوالکر کا بیان رہا: 1942ء میں بھی کئی گوشوں کے دلوں میں طاقتور جذبات تھے۔ اُس وقت بھی سنگھ کا معمول کا کام جاری رہا۔ سنگھ نے عہد کررکھا تھا کہ کچھ راست طور پر نہ کیا جائے۔‘‘ اس تحریک سے الگ تھلگ رہنے کے اپنے فیصلہ کی مدافعت کرتے ہوئے اُن کا کہنا رہا: ’’ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے عہد میں ہم نے مذہب اور ثقافت کی مدافعت کے ذریعے ملک کو آزادی دلانے کی بات کی ہے، یہاں سے انگریزوں کی روانگی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔‘‘ (شری گروجی سماگرا درشن، جلد IV، صفحہ 40)۔
ہندوستانی قوم پرستی مشمولاتی اور تکثیری ہے جیسا کہ ہندوستانی دستور میں صراحت کی گئی ہے، لیکن آر ایس ایس بالخصوص منو کے قدیم قوانین کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہا ہے۔ قوم پرستی محض مملکت اور اس کی سرحدیں نہیں ہے، بلکہ یہ سماجی رشتے ہیں۔ ہندوستانی قوم پرستی کے معاملے میں یہ اقدار آزادی، مساوات اور بھائی چارہ ہیں۔ ’مذہب کی آڑ میں قوم پرستی‘ مساوات کی ان اقدار کو مغربی قرار دیتا ہے، جو فلاں فلاں ملک کیلئے موزوں نہیں ہیں۔مثال کے طور پر مصر میں تنظیم اخوان المسلمون اسلام کی آڑ میں جاگیردارانہ موروثی اقدار کو فروغ دیتی ہے۔ یہ مساوات، آزادی کے جمہوری اقدار کو ’مغربی اقدار‘ قرار دیتی ہے۔ اسی طرح آر ایس ایس ہندوستانی دستور کو مغربی قرار دیتی ہے۔
ہمارے تعلیمی نصابوں میں اس قسم کی تبدیلیوں کے ذریعے کو شش یہ ہے کہ آر ایس ایس کو ہندوستانی قوم کی تعمیر کے حصہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ یہ جھوٹ اس حقیقت کو پوشیدہ کرتا ہے کہ آر ایس ایس نے نہ برطانوی حکمرانی کے خلاف جدوجہد کی اور نہ مساوات کے جمہوری اقدار کیلئے محنت کی۔ نصاب میں تبدیلی جیسی کوششیں آر ایس ایس کو ہندوستانی قوم کی تعمیر کرنے والی تنظیم کی حیثیت سے واجبیت دینے کی سعی ہے، جو حقیقت نہیں ہے۔
[email protected]