نصف دنیا قرض بحران میں ڈوب رہی ہے ، انٹونیو گوتریس کا انتباہ

   

حیدرآباد : کوئی 3.3 بلین لوگ ’ تقریبا دنیا کے نصف لوگ ‘ اب ان ممالک میں رہتے ہیں جو تعلیم اور صحت سے زیادہ ان کے قرض پر سود کی ادائیگی کے لیے رقم خرچ کرتے ہیں ۔ چہارشنبہ کو جاری ایک نئی یو این رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے ۔ یو این کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوتریس نے اس رپورٹ کو جاری کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کیوں کہ اس قرض کے بحران کا شکار زیادہ تر غریب ، ترقی پذیر ممالک ہیں اس لیے اس بات کا اندازہ نہیں کیا جارہا ہے کہ اس سے گلوبل فینانشیل سسٹم کو کوئی خطرہ لاحق ہے ۔ ’ یہ ایک سراب ہے ‘ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے انتباہ دیا کہ ’ 3.3 بلین لوگ ایک باقاعدہ جوکھم سے زیادہ ہیں یہ ایک ناکامی ہے ‘ ۔ انہوں نے کہا کہ فینانشیل مارکٹس بظاہر متاثر ہوتے دکھائی نہ دے سکتے ہوں لیکن کروڑہا لوگ اس سے متاثر ہیں اور عوامی قرض کی سطح ڈگمگا رہی ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’ 2022 میں گلوبل پبلک ڈیٹ 92 ٹریلیئن ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا تھا اور ترقی پذیر ممالک ایک غیر متناسب رقم کی ذمہ داری لیتے ہیں ‘ ۔ اس رپورٹ کے مطابق زیادہ مقروض ممالک کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ 2011 میں 22 ممالک سے 2022 میں 59 تک کا اضافہ ہوا ہے ۔ سکریٹری جنرل نے کہا کہ قرض کا ایک بڑھتا ہوا حصہ خانگی کریڈیٹارس کے پاس ہوتا ہے جو ترقی پذیر ممالک کو بہت زیادہ شرح سود چارج کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر انہوں نے آفریقی ممالک کا تذکرہ کیا ۔ قرض کے بحران کی وجہ حکومتوں کے پاس یو این ڈیولپمنٹ گولس فار 2030 میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے پیسہ نہیں بچ رہا ہے جس میں غربت کو ختم کرنا ، اس بات کو یقینی بنانا کہ ہر بچہ کو پرائمری اور سکنڈری اسکول کی معیاری تعلیم حاصل ہو اور قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کرنا شامل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ عوامی قرض زیادہ تر دو وجوہات کے باعث بہت ہی زیادہ کی سطح پر پہنچ گیا ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ ممالک کی مالی ضرورتوں میں اضافہ ہوا جب کہ انہوں نے لگاتار بحرانوں بشمول کووڈ 19 وباء کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی ، اور اس سے زندگی کے اخراجات میں اضافہ اور موسمی تبدیلی ہوئی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ گلوبل فینانشیل آرکیٹکچر نے ترقی پذیر ممالک کے لیے فینانس کی فراہمی کو ناکافی اور مہنگا بنادیا ہے ۔۔