یہ ایک حیرت انگیز لمحہ ہے۔ ہماری آزادی ہمارے ہاتھ میں ہے : بورس جانسن
بریگزٹ کے بعد برطانیہ کے مستقبل کو غیریقینی صورتحال کا سامنا ہوگا
لندن: سال 2021ء برطانیہ کی تاریخ نئے باب سمیت ایک نئے بحران کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ بریگزٹ کے لیے مسلسل ساڑھے چار سال جاری رہنے والی کوششوں کے بعد آخر کار برطانیہ نے یورپی یونین کے ساتھ نصف صدی پر محیط تعلق باضابطہ طور پر ختم کردیا ہے۔ آج کے بعد برطانیہ یورپی یونین کا حصہ نہیں رہے گا۔ سال 2021ء برطانیہ کی تاریخ کا ایک نیا باب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نئے بحران کا باعث بھی بن سکتی ہے۔جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب برطانیہ کے معیاری وقت کے مطابق رات 11اور گرینچ کے مطابق 23 بجے متفقہ طور پر یونین سے علاحدگی اختیار کی۔ اس طرح 47 سال کا یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ 31دسمبر 2020ء کو جاری ہونے والے فیصلے یکم جنوری 2021ء کی صبح کو تبدیل ہو گئے۔ یورپی یونین کے فیصلوں اور قواعد میں آج سے ایک نئی تبدیلی رونما ہو گی۔یورپی یونین میں انضمام کی نصف صدی کے بعد برسلز میں آدھی رات کو اور بگ بین کی گھڑیال پر گیارہ بجنے کے ساتھ ہی بریگزٹ مکمل ہوگیا۔ یورپی یونین سے علاحدگی کا یہ سفر 31جنوری 2020ء کو شروع ہوا اور یہ عبوری مرحلہ گذشتہ سال کے آخری لمحات کو مکمل ہوگیا۔برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے جمعرات کو کہا کہ یورپی سنگل مارکیٹ سے برطانیہ کا اخراج ایک ’’حیرت انگیز لمحہ‘‘کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ان کا ملک سب کے لیے کھلے پن کا مظاہرہ کرے گا۔نئے سال کے موقع پر اپنی تقریر میں جانسن نے کہا کہ یہ ایک حیرت انگیز لمحہ ہے۔ ہماری آزادی ہمارے ہاتھ میں ہے اور یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اس کا استعمال کریں۔ برطانیہ کے خاتمے کے بعد سب سے بڑا سیاسی و جغرافیائی قدم لیتے ہوئے یونین کے ساتھ 48 سالہ وابستگی ایسے وقت میں ترک کردی ہے جب بریگزٹ کے بعد کا اس کا مستقبل غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔بریگزٹ یوں تو 31 جنوری کو ہو گیا تھا جب برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوا تھا۔ لیکن جمعرات کو اس کی ‘ڈی-فیکٹو ممبر شپ’ بھی عبوری عرصے کے خاتمے کے ساتھ ہی اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔برطانیہ میں پانچ سال سے جاری بریگزٹ بحران یورپ کے معاملات پر غالب رہا۔ اس نے ‘اسٹرلنگ مارکیٹ’ کو بری طرح نقصان پہنچایا اور مغرب کے معاشی اور سیاسی استحکام میں برطانیہ کے ایک پراعتماد ستون ہونے کی شہرت کو داغدار کیا۔برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے حامی بریگزٹ کو خود مختار ‘عالمی برطانیہ’ کی ایک نئی صبح قرار دیتے ہیں۔ لیکن بریگزٹ نے اس وابستگی کو کمزور کر دیا ہے جو انگلینڈ، ویلز، اسکاٹ لینڈ اور نادرن آئرلینڈ کو 30 کھرب ڈالر کی ایک مضبوط معیشت میں جوڑ کر رکھے ہوئے ہے۔برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے نئے سال کے آغاز پر پیغام میں کہا کہ یہ ملک کے لیے اہم لمحہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری آزادی اب ہمارے ہاتھوں میں ہے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔برطانیہ میں 23 جون 2016 کو ہونے والے ریفرنڈم میں ایک کروڑ 74 لاکھ رائے دہندگان نے، جو ملک کے 52 فی صد ووٹر بنتے ہیں، بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ایک کروڑ 61 لاکھ یا 48 فی صد ووٹرز نے یورپی یونین میں رہنے کی حمایت کی تھی۔ بعض افراد نے اس کے بعد اپنا ذہن تبدیل بھی کیا ہے۔انگلینڈ اور ویلز نے بریگزٹ کے حق میں اور نادرن آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ نے یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔اس ریفرنڈم نے ایک منقسم برطانیہ کی تصویر دنیا کے سامنے رکھ دی تھی۔ یہ تقسیم صرف بریگزٹ پر ہی موقوف نہ تھی بلکہ امیگریشن سے کیپٹلزم تک، ریاست کی پالیسی اور برطانوی ہونے کے مطلب تک، ہر معاملے میں تقسیم واضح ہو گئی تھی۔ یاد رہیکہ برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی۔