عثمان شہید ،ایڈوکیٹ
1950ء میں ہندوستان نے دستور کو اپنایا اور جمہوریت کے قالب میں ڈھل گیا جس کی رو سے ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ دستور ہند کا تیسرا باب بنیادی حقوق سے تعلق رکھتا ہے جو ناقابل ترمیم و تنسیخ ہے۔ اسی باب میں آرٹیکل
3(1) (G)
کے تحت یہ ضمانت دی گئی ہے کہ وہ تحریر و تقریر کے معاملے میں آزاد ہیں لیکن سپریم کورٹ نے اس پر قدغن لگا دی ہے کہ آپ ملک کی سالمیت اور مفاد کے خلاف اس دفعہ میں دی گئی چھوٹ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ساتھ ہی کسی شہری پر شخصی حملہ کریں گے، نہ ہی اس کی کردارکشی کریں گے۔ یہ دستور کی خلاف ورزی ہے۔ تعزیراتِ ہند کے تحت قابل جرم ہے۔
ہر شہری اپنے بنیادی حقوق سے ایسے ہی واقف ہو جیسے چارمینار کے وجود سے واقف ہے۔ ہر شہری کو کسی بھی معاملہ میں اپنی رائے کا حق حاصل ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو نصیرالدین شاہ اور جاوید اختر نے بیانات دے کر کوئی غلطی نہیں کی۔ نہ دستوری نہ اخلاقی اور نہ ہی تعزیراتی۔ انہوں نے ملک کی سالمیت کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ نہ ہی دستور ہند کی دھجیاں اُڑائیں۔ جبکہ کہا جارہا ہے کہ رام کو ووٹ دینے والے رام زادے باقی سب حرام زادے یہ کہہ کر ہماری ماؤں پر الزام لگایا جارہا ہے لیکن اس پر بی جے پی کے لیڈر خاموش ہیں۔ کسی نے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ کسی نے بولنے والے پر نہ پابندی لگائی اور نہ ہی انہیں پارٹی سے نکالا گیا۔ یوں ہی جمہوریت کا مذاق اُڑایا گیا۔ کسی نے جوش میں آکر کہہ دیا ’’گولی مارو سالوں کو‘‘ اس پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ بولنے والے ایم پی اور ایم ایل اے کو ہمت ہوئی، اب بھی وہ آزاد گھوم رہا ہے جبکہ نصیرالدین شاہ اور جاوید اختر پر مسلسل حملے کئے جارہے ہیں دونوں اس کے مستحق نہیں ہیں۔ جبکہ انہوں نے طالبان اور آر ایس ایس کا تقابل کیا۔ ایسے معاملے میں آر ایس ایس کی تاریخ پڑھنی چاہئے کہ وہ اپنے پارٹی ورکرس کو دونوں شخصیتوں پر حملہ کرنے سے روک دیں اور ان کی شخصیتوں کو مجروح ہونے سے روکیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نتیجتاً تاریخ سے واقف لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عدل و انصاف ہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ وہ انصاف جو شہنشاہ جہانگیر نے اپنی بیوی نورجہاں کو دھوبی کے قتل کے الزام میں سزائے موت صادر کرکے یقینی بنایا تھا ۔ سزائے موت سناتے وقت نہ وہ کانپا، نہ اس کا دل کانپا، نہ اس کا ہاتھ کانپا۔ جب دھوبن نے نورجہاں کو معاف کردیا تو اپنی بیوی کے قدموں میں گر کر بولا ’’اگر تم مرجاتی تو میں بھی مرجاتا‘‘۔ اس طرح عدل و انصاف میں عدل کی روح پھونک کر جہانگیر نے انصاف کو امر کردیا اور دنیا کو بتلادیا کہ انصاف یوں ہوتا ہے۔
اسلام میں عدل و انصاف کا خاص مقام ہے اور اس کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ عدل و انصاف پر عمل پیرا رہنا اسلامی شعار ہے۔ بادشاہ ہو کہ فقیر عدل سے کام لے۔ صدر امریکہ ابراہم لنکن نے قاتل کے ہاتھ میں ریوالور دیکھ کر بھی اعتراض نہیں کیا کیونکہ یہ انہوں نے ہی کہا تھا کہ ہر شخص کو ریوالور رکھنے کا حق ہے اور اسی نے ابراہم لنکن کی کنپٹی پر رکھ کر چلا دیا۔ تعزیزی سزا تو دی گئی لیکن دستور کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دی گئی اور امریکہ نے ثابت کردیا کہ وہاں جمہوریت کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔
محمد علی کلے کو ویٹنام جنگ میں شریک نہ ہونے کی سزا نہیں دی گئی نہ ہی ان کے خلاف بیانات دیئے گئے اس نے جمہوریت اور دستور کا مذاق نہیں اُڑایا تھا۔ صرف اپنے حق کا استعمال کیا تھا۔
ملک میں دستور کی حکمرانی ہے۔ دستور سپریم لا ہے۔ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ دستور کا احترام کرے ۔ اس کو مانے تسلیم کرے اور اس پر عمل کرے۔ خصوصاً باب سوم مین دیئے گئے حقوق مقدس ہیں۔ اصل روح ہی ہے۔ اس میں الیکشن ہلڑنے کا بھی حق دیا گیا ہے۔ افسوس ایک
I.P.S
آفیسر امیتابھ ٹھاکر نے الیکشن لڑنے کا اظہار ٹوئٹر پر کیا تو اس پر ظلم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا جیسے اس نے کوئی ناقابل معافی گناہ کیا ہے۔ اس طرح دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسٹوڈینٹ لیڈر عمر خالد کو اس لئے تہاڑ جیل میں ایک سال سے محروس رکھا گیا کیونکہ اس نے
C.A.A
کے خلاف احتجاج کیا تھا، لیکن پولیس آج تک اس کا جرم ثابت نہ کرسکی پھر بھی وہ جیل میں سزا کاٹ رہا ہے۔ اس طرح دستور کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اعظم خاں ایم پی اور ان کے ارکان خاندان کو بنیادی حقوق اور دستوری حقوق کی پامالی کرتے ہوئے جیل میں رکھا گیا۔ شاہین باغ کے احتجاج کرنے والوں پر بھی ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور فیض احمد فیضؔ کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ گانے والی لڑکی کو قید کردیا گیا۔
موجودہ حالات میں جمہوری اقدار کو بچانا ہے تو احتجاج کرنا ہوگا، ورنہ انصاف کاغذ کی زینت بن جائے گا۔ جب انصاف مانگنا خود ظلم ہوجائے گا تو انصاف کے معنی بدلنا ہوگا۔ ایسے میں سپریم کورٹ کی مداخلت بھی ضروری ہے۔ سپریم کورٹ ہی دستور کا پاسبان ہے اور بنیادی حقوق کا نگہبان ہے۔ وہیں اسلام میں بھی جمہوریت اور بنیادی حقوق کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں کہ رہتی دنیا تک تابندہ روشن ہے جیسے حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ بننے کے دوسرے دن اپنی دکان کی طرف روانہ ہونے لگے تو حضرت عمر فاروق ؓنے پوچھا کہاں جارہے ہیں جس پر حضرت صدیق ؓ نے جواب دیا کاروبار کرنے تو حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ اگر آپ کاروبار کو چل دیئے تو اُمور سلطنت کون سنبھالے گا۔ آپ کے حالات کو دیکھتے ہوئے مجلس شوریٰ نے طئے کیا کہ بیت المال سے آپ کیلئے تنخواہ مقرر کی جائے جب حضرت ابوبکر صدیقؓ سے پوچھا گیا تو آپؓ نے فرمایا میری اجرت وہی مقرر کرو جو ایک عام مزدور کی ہے۔ اس پر مجلس شوریٰ نے کہا کہ یہ تو بہت ناکافی ہوگی تو آپ نے فرمایا تو پھر ہم مزدور کی اجرت بڑھا دیں گے۔ یہ ہوتی ہے جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری جس کو حضرت ابوبکر صدیق ؓنے عملاً ثابت کیا۔ اسی طرح ایک بوڑھیا نے خلیفہ دوم کو بھری محفل میں یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ آپ کے پاس اتنا لمبا کرتا کہاں سے آیا۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا : ’’یہ اضافی شدہ کپڑا بیت المال نے نہیں میرے بیٹے نے دیا۔ حضرت خالدؓ بن ولید کا عمامہ بیچ میدان جنگ میں جبکہ دشمن بظاہر قوی تر تھا، کھینچ لیا گیا اور انہیں معزول کردیا گیا جس پر آپ نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ جلوس نہیں نکالا، ہڑتال نہیں کی بلکہ اللہ کا شکر کرتے ہوئے فرمایا۔ مجھے ذمہ داری سے سبکدوش کردیا گیا ہے۔ اب میں کھل کر جنگ لڑوں گا۔ اس طرح اسلام کے عدل سے متاثر ہوکر
Robert Crane
جو امریکہ کے صدر رچرڈ نکسن کے مشیر تھے، مسلمان ہوگئے اور اپنا نام ’’فاروق عبدالحق‘‘ رکھ لیا۔ اسی طرح مہاتما گاندھی نے ہندوستان کے نئے حکمراں سے کہا تھا کہ
Follow the Rules of Govts of Siddique & Farooq ۔
اگر اس پر عمل ہوتا تو ہندوستان جنت نشان ہوتا۔