نظام آباد کانگریس میں اختلافات نمایاں ، اقلیتوں میں بھی ناراضگیاں

   

ڈی سی سی صدر کی حلف برداری تقریب میں سینئر قائدین بھی نظرانداز ، سب کو ساتھ لیکر چلنے کی روایت میں نئی قیادت ناکام
نظام آباد 2؍ دسمبر (محمد جاوید علی کی رپورٹ) ضلع کانگریس کمیٹی کے نئے صدر کی حلف برداری تقریب میں انتظامی کمی، کارکنوں کی کم تعداد اور سینئر قائدین کی ناراضگی نمایاں رہی جس سے پارٹی کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ تقریب میں اقلیتی قائدین اور کارکنوں کو اطلاع نہ دینے پر بھی سخت ناراضگی دیکھی گئی۔تقریب میں پی سی سی صدر مہیش کمار گوڑ، سرکاری مشیر پی سدرشن ریڈی، سابق وزیر محمد علی شبیر، سابق وزیر مانڈوا وینکٹیشور راؤ اور چند دیگر اہم قائدین نے شرکت کی تاہم کارکنوں کی تعداد نہایت کم رہی اور جو کارکن آئے بھی تھے وہ کچھ دیر بعد ہی واپس چلے گئے۔ اس دوران سرکاری مشیر سدرشن ریڈی، وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی کی عادل آبادریالی کی تیاریوں کے سلسلے میں تقریب کے دوران ہی روانہ ہوگئے، جس کے نتیجے میں ان کے ساتھ آئے کئی قائدین بھی چلے گئے اور ہال میں خالی کرسیاں نمایاں ہو گئیں۔تفصیلات کے مطابق نئی ضلعی قیادت نے پروگرام کے انتظامات میں سینئر قائدین کو شامل نہیں کیا جس پر ناراضگی کی آوازیں شدت سے اُٹھیں۔ سابق ڈی سی سی صدور مانالا موہن ریڈی اور کیشو وینوہمیشہ سینئر و جونیئر قائدین کو ساتھ لے کر چلتے رہے تھے مگر اس مرتبہ نئی قیادت اس روایت پر عمل کرنے میں ناکام نظر آئی۔ریاستی زرعی کمیشن کے رکن گڑگو گنگادھر نے کارکنوں کی نظراندازی پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ دینے والے کارکن ہی اصل طاقت ہیں انہیں نظرانداز کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ رورل حلقے سے تعلق رکھنے والے نو منتخب ڈی سی سی صدر کے باوجود رورل حلقے کے رکن اسمبلی بھوپتی ریڈی نے تقریب میں شرکت نہیں کی جس کی وجہ سے رورل قیادت بھی دور رہی۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی عدم موجودگی کے باوجود پروگرام کا انعقادِ عمل میں لایا گیا جس پر وہ ناخوش ہیں۔تقریب میں سابق وزیر اور سینئر کانگریس قائد محمد علی شبیر نے بھی کھل کر اپنی ناراضگی ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ضلع کے سینئر ترین قائد ہیں انہوں نے وضاحت کی کہ انتخابات میں ہمیشہ مسلم رائے دہندوں نے کھل کر کانگریس کی حمایت کی ہے۔ اسمبلی انتخابات میں 52 ہزار ووٹ اور پارلیمانی انتخابات میں جیون ریڈی کو بی جے پی امیدوار کے مقابلے 20 ہزار زائد ووٹ ملنا کارکنوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے راہول گاندھی کے اس اعلان کا حوالہ دیا کہ ’’جس کی جتنی آبادی، اس کی اتنی حصہ داری‘‘۔ لیکن یہاں اقلیتوں کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ گلدستے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’تمام پھول مل کر ہی ایک ہار بنتا ہے‘‘، لہٰذا پارٹی کو متحد رکھنے کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ متحدہ آندھرا پردیش کے دور میں نظام آباد ضلع کانگریس کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے آنجہانی ڈی سرینواس کے ساتھ مل کر ضلع کی ترقی کے لیے کئی اقدامات کیے تھے۔دیگر قائدین نے بھی پارٹی میں اتحاد کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ سرکاری مشیر سدرشن ریڈی نے کہا کہ ریاست میں کانگریس کی لہر برقرار ہے اور سرپنچ انتخابات میں کامیابی کے لیے متحدہ جدوجہد ضروری ہے۔سابق وزیر منڈوا وینکٹیشور راؤ نے اختلافات ختم کرنے مشترکہ کوششوں کی اپیل کی۔ نومنتخب ڈی سی سی صدر کے ناگیش ریڈی نے کہا کہ وہ پارٹی کو نچلی سطح تک مضبوط بنانے اور سرپنچ انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کیلئے پوری طاقت سے کام کریں گے۔ ٹاؤن صدر بوببلی رام کرشنا نے بھی تنظیمی ڈسپلن کے ساتھ کارکنوں کے درمیان فعال کردار ادا کرنے کا عزم ظاہر کیا۔تقریب میں سینئر قائدین کی ناراضگی، کارکنوں کی کم موجودگی اور انتظامی خامیوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ ضلع کانگریس کو فوری طور پر داخلی اتحاد، مربوط حکمت عملی اور بہتر تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔