نفرت اور عداوت کی جنگ میں محبت کو ناکام ہونے نہیں دیں گے

,

   

سیول رائٹس اور اسلامک سنٹر کی دو کلیدی تنظیموں کا ٹھوس عہد، مختلف مذہبی رہنماؤں کی شرکت
l اسلام کے پیغام پر خود عمل کرنے کے ساتھ دوسروں کو بھی سمجھانا وقت کی اہم ضرورت : سلمان خورشید
l نفرت و تشدد نے سماج کا شیرازہ بکھیر رکھا ہے ، اجلاس کے روح رواں محمد ادیب سابق ایم پی کا ریمارک
l تمام مذاہب کی ہمارے پاس قدر ، لوگ سیاسی فائدہ کیلئے خطرناک کھیلوں میں مشغول : سنجے سنگھ

نئی دہلی: انڈین مسلمس فار سول رائٹس اور انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر کے اشتراک سے دہلی کے اسلامک سنٹر میں ایک اہم پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس اہم کانفرنس میں شریک اہم شخصیات نے قومی اتحاد و اتفاق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں بڑھتی نفرت کے پیشِ نظر ہمیں ہر حال میں مل جل کر گنگا جمنی تہذیب اور آپسی بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔ نیز موجودہ وقت میں تیزی سے پھیل رہی نفرت و عداوت کو ختم کر کے بقائے باہمی آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ اس دوران مختلف مذاہب کے اہم رہنماؤں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہندوستان میں چونکہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، جین، بودھ، پارسی سمیت مختلف طبقے کے لوگ ہزاروں سال سے پیار و محبت اور آپسی بھائی چارے کے ساتھ رہتے آئے ہیں اور سبھی تیوہار و خوشیاں مل جل کر جشن کے طور پر مناتے ہیں، یہی نہیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھی مل جل کر شریک ہوتے ہیں یہی ہمارے وطن عزیز کی شناخت اور تہذیب و ثقافت ہے۔ اجلاس کے روح رواں انڈین مسلمس فار سول رائٹس کے چیئرمین اور سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا اور بتایا کہ جس تیزی کے ساتھ نفرت و تشدد اس وقت سماج میں بڑھ رہا ہے ایسے حالات میں آئی ایم سی ار ہندوستان بھر کے کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں پیار و محبت کے فروغ اور نفرت کے خاتمے کے لیے سیمینار یا کانفرنس کی شکل میں پروگرام منعقد کرنا چاہتا ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی نفرت کا خاتمہ کرنا انتہائی ضروری ہے اگر اس پر فوری عمل نا کیا گیا تو ملک زبردست نقصان سے دو ہوگا۔ اس موقع پر عام آ دمی پارٹی کے سینر لیڈر اور راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ نے فخر کے ساتھ کہا کہ ہم تمام مذاہب کی عبادت گاہوں میں جاتے ہیں۔ مگر کبھی ہمارا دھرم خطرے میں نہیں پڑتا ہے۔ لوگ اپنے سیاسی فائدہ کے لیے کچھ بھی کر گزرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں اور اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے سے باز نہیں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی بھارت کا آ ئین خطرے میں آ ئے گا تو سبھی لوگ اکٹھا ہو کر وطن عزیز کی بقاء ، جمہوریت اور دستور کو بچانے کے لیے ضرور یکجا ہوں گے۔ سنجے سنگھ نے مجوزہ وقفِ ترمیمی بل 2024 کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی خطرناک قانون ہے، اس بل کو ہر حالت میں پاس ہونے سے روکنے کی ضرورت ہے۔الیکشن کمیشن آف انڈیا کے سابق سربراہ ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے کہا کہ آ ج ‘بٹیں گے تو کٹیں گے’ کانعرہ سرکار میں بیٹھے لوگ لگا رہے ہیں جبکہ ہمیں ‘جڑیں گے تو نہیں کٹیں گے’ کی پا لیسی پر چلنا ہے۔ ہمیں ہر حالت میں اتحاد و اتفاق قائم رکھتے ہوئے آپسی بھائی چارے کو بنا? رکھنا ہے۔ دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ پچھلے 10 سالوں میں سرکار مسلم اور عیسائی کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ آ پ کا دھرم تھرڈ کلاس کا مذہب ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 10 سالوں میں جو بھی قانون اور بل لائے گئے ہیں وہ سب ہمیں اتحاد اور جڑنے کا درس دیتے ہیں جبکہ کمزور طبقات کو اپنی صفوں میں ہر حالت میں اتحادقائم رکھنے پر زور دیتے ہیں۔دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر رتن لال کا کہنا تھا کہ تاحال نفرت و عداوت کو ختم کرنے کے لیے ایک پریشر گروپ بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ان کا خیال ہے کہ یہ گروپ ایک طرف جہاں عوام کے درمیان جا کر نفرت کی فضا کو ختم کرنے کا کام کرے گا تو وہیں دوسری جانب سرکار پر بھی زبردست دباؤ بنانے میں کارگر رہے گا۔ سکھ مذہب سے نمائندگی کرنے والے معروف سماجی کارکن سردار دیا سنگھ صاحب نے کہا کہ ہندو اور مسلمان ہر حالت میں متحد رہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سبھی مذاہب کا اب ایک ساتھ آ نا انتہائی ضروری ہے۔ بودھ مذہب کے سربراہ آچار یہ یشی فونتسک نے بھی موجودہ وقت میں سبھی کو ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اقلیت، دلتوں اور آدیواسیوں کے ساتھ ساتھ سیکولر ہندؤں کو ایک پلیٹ فارم پر ساتھ آ نا چاہیے، تاکہ نفرت و عداوت کا مقابلہ کیاجا سکے۔ معروف حقوق انسانی کے کارکن اور گاندھی وادی پروفیسر وی کے ترپاٹھی نے بھی کہا کہ سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں خیرسگالی اور بقائے باہمی ہم آہنگی کے پروگرام کے علاوہ ہمیں پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بھی اس طرح کے پروگرام منعقد کرنا چاہیے۔ اس موقع پر سرو دھرم سنسد کے سربراہ گوسوامی سوشیل جی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ آج ہندوستانی آئین پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ موجودہ وقت میں پیار و محبت کی فضا کو قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انڈیا اسلامک کلچر سنٹر کے صدر، سینئر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ اور سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے کہا کہ انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر بین المذاہب مکالمے اور آپسی انتشار و نفرت کو ختم کرنے کے سلسلے میں سرگرم ہے۔ ہمیں آئین کو محفوظ کرنے کے تعلق سے ایک پلیٹ فارم پر آنے کی سخت ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ مذہب اسلام کے پیغام پر نہ صرف خود عمل کریں بلکہ اسے دوسروں کو بھی سمجھائیں اور بتائیں تاکہ اپنے اپنے مذہب کی ہدایت کے مطابق ملک کو امن کا گہوارہ بنانے میں ہم اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ہمیں بات چیت اور ڈائیلاگ کا راستہ کبھی نہیں چھوڑنا ہے۔ کانگریس پارٹی سے رکن پارلیمنٹ اور وقف ترمیمی بل 2024 کی جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے رکن عمران مسعود نے کہا کہ ملک میں جس تیزی سے نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔یہ بڑے فکر کی بات ہائی۔گاندھی جی نے جو طریقہ اپنایا ہے یا جو اصول بتائے ہیں اس اصول پہ آگے بڑھتے ہوئے ہی ملک کو امن کا گہوارہ بنایاجا سکتا ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے انہوں نے آئی ایم سی آر کی اس کوشش کی جم کر تعریف کی اور کہا کہ اس ہال میں موجود تمام وہ لوگ جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں بڑھتی ہوئی نفرت اور تشدد کو اگر ختم کرنا ہے تو ان کو آ گے آنا ہوگا۔ عمران مسعود نے کہا کہ گاندھی کے اس دیش میں نفرت کی کوئی جگہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ گاندھی کے راستے کو ہی اپنانا اس مسئلے کا واحد حل ہے۔عیسائی مذہب کے رہنما پادری ڈاکٹر ایم ڈی تھامس نے کہا کہ اپنے بچوں کو گھروں میں ہی اعلی اخلاق کے ساتھ اچھی تربیت دیے جانے کی ضرورت ہے پہلے ہم مذہبی تعلیم دینے کے بجائے اگر ایک اچھا انسان، اچھا شہری بنالیں تو اس طرح کے حالات پیدا ہو نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے جو بھی آپسی اختلافات ہیں اس کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ جین مذہب کے رہنما اچار یہ و یویک منی جی نے کہا کہ ہمیں کسی بھی مذہبی شدت پسندی کی حمایت نہیں کرنی ہے بلکہ اس کی ہم سب کھل کر مخالفت کریں اور ایک اچھا ہندوستانی بننے پر ہمیں دھیان دینا چاہیے۔ پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والے زوریش زری والا نے کہا کہ ہم سب انسانیت کے پیروکار ہیں اور سبھی مذاہب انسانیت کی تعلیم دیتے ہیں اور سبھی مذاہب کا احترام بھی ہم پر لازمی ہے لہذا ایسے تشویشناک حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آ ہنگی اور پیار و محبت کو قائم کر کے محبت کو عام کریں۔ شرکاء میں پٹنہ ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس اقبال انصاری، سپریم کورٹ اف انڈیا کے سینیئر ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی، سابق سفیر اشوک کمار شرما، کسان لیڈر پشپیندر سنگھ، معروف صحافی اور سابق رکن پارلیمنٹ سنتوش بھارتیہ، سی پی ایم کی سینئر لیڈر اور سابق رکن پارلیمنٹ حنان ملّا، معروف صحافی ونود اگنی ہوتری،صحافی نوین کمار اور سماجی کارکن ارون مشرا وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔پروگرام کے اختتام پر آ ئی آئی سی سی کے صدر سلمان خورشید نے ایک قرارداد پیش کی۔قرارداد نے زور دیا کہ تمام مذا ہب کے درمیان آپسی ڈائیلاگ فروغ پائے۔ یہ اجلاس اس بات کا بھی اعلان کرتا ہیکہ آپسی ہم آہنگی کو مضبوط کرنے کیلئے ایک انٹر فیتھ یونیورسٹی قائم کئے جانے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ آئی آئی سی سی کے نائب صدر فرقان احمد نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا جبکہ نظامت کی فرائض آئی ایم سی آر کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد اعظم بیگ نے انجام دیئے۔ ہمالیہ ڈرگز کمپنی کے سربراہ اور انڈین مسلم فار سول رائٹس کے سرپرست ڈاکٹر سید فاروق، زکوۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا کے صدر اور سابق سیکرٹری حکومت ہند ڈاکٹر سید ظفر محمود، ریٹائرڈ جنرل جاوید اقبال خان، آئی ایم سی آر کے سکریٹری جنرل مسعود حسین رضوی، سابق سفیر راجیندر پال، آئی ایم سی آر کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد خالد خان، کانگریس لیڈر پنیت منچندہ، معروف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ محمد یامین قریشی، کانگرس لیڈر محمد پرویز عالم اور آصف جاہ ، انڈین مسلم فار سول رائٹس کے میڈیا کوارڈینیٹر انظر الباری،سماجی کارکن املاک خان اور نیہا مصطفی و دیگر شریک ہوئے۔