روہنی سنگھ
ہندوستان میں پچھلے 9-10 برسوں سے ایسا لگتا ہے کہ نفرت کو معاشرہ میں بہت زیادہ فروغ دیا گیا ہے نتیجہ میں ہر طرف نفرت و عداوت کا ماحول دیکھا جارہا ہے لیکن یہاں یہ سوال سب سے اہم ہے کہ آخر یہ نفرت کون پھیلا رہا ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ اور نفرت کی سیاست آخر ہمارے ملک میں نقطہ عروج پر کیسے پہنچ گئی ؟ ۔جہاں تک نفرت یا نفرت انگیز پیغامات کے ذریعہ ملک کے پُرامن ماحول کو پراگندہ کرنے یا آلودہ کرنے کا سوال ہے اس ضمن میں بلا جھجھک یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک پر حکومت کررہی بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کے سوشل میڈیا ڈپارٹمنٹ باالفاظ دیگر آئی ٹی سیل کا گھناؤنا کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ 2014 سے ہی ہندوستان میں نفرت کا زہر گھولنے میں شدت پیدا کی گئی اور فرقہ پرست عناصر نے 2014 سے ہی اس میدان میں وہ مہارت دکھائی کہ امن وامان، جمہوریت، سیکولرازم، گنگا جمنی تہذیب کے حامی اس کے سامنے کوئی ٹہر نہیں سکا، اور ساری دنیا نے دیکھا کہ اس مہارت نے نریندر مودی کی قیادت میں آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بی جے پی کو اقتدار میں لانے اہم کردارادا کیا اور تب سے اب تک نفرت کی سیاست کو بڑی تیزی سے فروغ حاصل ہوتا رہا ہے جس کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نفرت کے سوداگروں نے اس زہر کو جمہوریت، سیکولرازم کے مندر سمجھے جانے والے پارلیمنٹ میں بھی پہنچادیا ہے۔ نفرت پھیلانے میں اکثر ہاؤزنگ سوسائٹیز اہم کردار نبھارہی ہیں، اگر کسی ہاؤزنگ سوسائٹی میں مکینوں کی بہبود کیلئے قائم سوسائٹی واٹس ایپ گروپ بناتی ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اس طرح کا گروپ آپ کو صحت مندانہ معلومات فراہم کرنے، بہتر و خوشحال زندگی کے معاملہ میں آپ کی رہنمائی کرنے اور دوسروں کے ساتھ آپ کے تعلقات خوشگوار بنانے کیلئے نہیں بنایا گیا ہے بلکہ مذہب کے نام پر آپ کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔
آپ دیکھیں کہ جو لوگ معاشرہ میں محبت بانٹتے ہیں امن کی باتیں کرتے ہیں اور امن کو فروغ دیتے ہیں وہ واٹس ایپ میسیج میں ہر صبح گلدستے اپنے گروپ کے ارکان کو اس خواہش و تمنا کے ساتھ روانہ کرتے ہیں کہ یہ دن آپ کیلئے خوشیوں و مسرتوں کی سوغات لے آئے لیکن اب اکثر جو پیامات الصبح موصول ہوتے ہیں ان میں ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی باتیں ہوتی ہیں، زعفرانی پرچم کے ساتھ کوئی فرقہ پرستانہ بیان ہوتا ہے اور ایسے ویڈیوز ہوتے ہیں جن میں مذہب کے ٹھیکیدار بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے اپنے ناپاک عزائم و مقاصد کی تشہیر کرتے ہیں اور لوگوں کے ذہنوں میں فرقہ پرستی کا زہر گھولتے ہیں۔ بدبختی کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں اور اس قسم کا زہر صرف ہاؤزنگ سوسائٹیوں کے واٹس ایپ گروپس تک محدود نہیں ہیں بلکہ اسکولوں میں طلباء و طالبات کے والدن کے جو گروپس ہیں ، صحافیوں کے جو گروپس ہیں ان میں بھی پھیل گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارے ملک کے امن و محبت کی تاریخ کو دیمک کی طرح چاٹتا جارہا ہے۔ اکثر فرقہ پرست یہ نہیں جانتے کہ رام لیلا میدان پر رام لیلا منعقد کروانے کا اعزاز سلطنت مغلیہ کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو جاتا ہے لیکن فرقہ پرست رام لیلا میدان پر رام لیلا کو ایک دوسری ہی شکل میں پیش کرنے لگے ہیں۔ ADR کے مطابق ملک میں ایسے بے شمار ارکان پارلیمان اور ارکان اسمبلی ہیں جو اشتعال انگیز بیانات کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔