نفرت کی جنگ میں محبت کا ہتھیار کامیابی کا ضامن

   

محمد مصطفی علی سروری
15؍ اپریل بروز چہارشنبہ شام ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا Public TV کنٹرا نیوز چیانل ہے۔ اس چیانل کے ناظرین نے دیکھا کہ خبروں میں بتلایا جارہا ہے ملک کے موجودہ حالات میں غریب اور پریشان حال افراد کی مدد کے لیے مرکزی حکومت نے عوام کو راست اور فوری امداد پہنچانے کے لیے بہت بڑا فیصلہ کیا ہے۔ خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ نریندر مودی کی حکومت اب عوام کو بغیر سود کا قرضہ نہیں دے گی بلکہ پیسے بانٹ دے گی اور یہ پیسہ گائوں گائوں کیسے پہنچایا جائے گا اس کے متعلق پبلک ٹی وی کی نیوز میں بتلایا گیا کہ حکومت باضابطہ طور پر ہیلی کاپٹر سے کرنسی نوٹ گرائے گی۔ (بحوالہ۔ اخبار دکن ہیرالڈ میں شائع شمن جوائے کی رپورٹ۔ مطبوعہ 16؍ اپریل 2020)
قارئین کنٹرا زبان کے اس نیوز چیانل نے اس خبر کو نشر کرنے کے علاوہ اپنے چیانل پر اسکرولنگ کے ذریعہ بھی اس خبر کو پیش کیا۔ اب آیئے اصل سوال کی طرف کیا واقعی حکومت کی جانب سے عوام میں ہیلی کاپٹر کے ذریعہ پیسہ گرانے کی اطلاع درست تھی؟

اس حوالے سے مرکزی حکومت کے ادارے پریس انفارمیشن بیورو (PIB) نے 16؍ اپریل کے دن ٹویٹر پر تردید جاری کی اور کہا کہ کنٹرا نیوز چیانل کی خبر غلط ہے اور حکومت ہیلی کاپٹر کے ذریعہ ایسا کوئی کام نہیں کرنے والی ہے۔ جب یہ اطلاع غلط تھی تو ایک نیوز چیانل نے کیسے خبر نشر کردی؟ قارئین سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر سے پیسے گرانے کی بات یا ’’ہیلی کاپٹر منی‘‘ (Helicopter Money)کہاں سے خبروں میں آئی۔
تفصیلات کے مطابق ریاست تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ چندر شیکھر رائو نے 11؍ اپریل کو وزیر اعظم مودی کے ساتھ ویڈیو کانفرنس میں دیگر وزرائے اعلیٰ کے ساتھ شرکت کی۔ کے سی آر نے اس کانفرنس کے دوران ملک اور خاص کر ریاست کو درپیش مالی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم سے اپیل کی کہ وہ ریاستوں کی مالی مدد کے لیے باضابطہ رعایات کا اعلان کریں ساتھ ہی انہوں نے عوام کی قوت خرید کو بحال کرنے کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا کے ذریعہ Helicopter Money استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔(بحوالہ اخبار دی بزنس لائن۔ مطبوعہ 12؍ اپریل)
تو قارئین چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے وزیر اعظم کے ساتھ اپنی ویڈیو کانفرنس کے دوران اسی بات کا ذکر کیا تھا کہ اگر مرکز RBI کے ذریعہ ریاستوں کو ناقابل واپسی رقم فراہم کرے تو ریاستی حکومتیں کرونا وائرس کے سبب لاگو کیے جانے والے لاک ڈائون سے متاثر معاشی سرگرمیوں کا احیاء کرسکے۔قارئین اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ یہ موضوع ہمارے کالم میں آچکا ہے کہ صحافت ایک پروفیشن ہے اور اس پرفیشن میں کام کرنے کے لیے پروفیشنل تربیت یافتہ افراد زیادہ موزوں ثابت ہوسکتے ہیں۔ خدا بھلا کرے کنٹرا نیوز چیانل کے اس کاپی ایڈیٹر کا جو ہیلی کاپٹر منی کی معاشی اصطلاح کو لفظی معنوں میں اخذ کرتے ہوئے غلط خبر چلادی کہ حکومت باضابطہ طور پر ہیلی کاپٹر کے ذریعہ عوام میں پیسے گرانے والی ہے۔

16؍ اپریل کو مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے پبلک ٹی وی چیانل کو ایک نوٹس دی گئی اور اس حوالے سے جواب طلب کیا گیا۔ خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق کنٹرا نیوز چیانل کے ہیلی کاپٹر منی پروگرام کے تعلق سے ٹویٹر کے ایک صارف نے مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سے شکایت درج کروائی جس کے فوری بعد متعلقہ وزارت نے اس واقعہ کا نوٹ لے کر چیانل کو وجہ بتائو نوٹس جاری کی۔
1990ء کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے جب الکٹرانک میڈیا اور خاص کر ٹیلی ویژن نیوز چیانل ہر گذرتے دن کے ساتھ عوامی اعتبار اور اپنی ساکھ کھوتے جارہے ہیں۔ اب تو گلی کا بچہ بھی میڈیا کو گودی میڈیا کہہ کر صحافیوں کی جانبداری کا کھلے عام ذکر کرنے لگا ہے۔میڈیا کے منفی کوریج کا سب سے بڑا نقصان اگر کسی قوم نے اٹھایا ہے تو وہ مسلمان ہیں لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود مسلمانوں نے میڈیا کے متعلق اپنی کوئی باضاطہ اسٹریٹجی نہیں بنائی۔ یہاں اگر میں اس بات کی وضاحت کردوں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ میڈیا میں کام کرنے والوںکی اچھی خاصی تعداد ایسے افراد کی ہے جو پروفیشنل انداز میں کام کرنے کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہے۔
دوسرا اہم نکتہ میڈیا کی جانب سے منظم انداز میں اور منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کی کردار کشی جس کی وجہ سے مسلمان ملک گیر سطح پر تعصب اور زیادتی کا سامنا کر رہے ہیں۔اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ ہم ذرا غور کریں تو پتہ چلے گا کہ جھوٹی خبریں، Fake News کے متعلق جب شکایت مناسب اور موزوں طریقے سے کی جائے تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ چونکہ جب جھوٹی خبریں حکومت کے مفادات کے خلاف ہو تو حکومتی مشنری فوری حرکت میں آتی ہے اور اس کا جواب دیتی ہے۔ میں دوبارہ ہیلی کاپٹر منی کی اس خبر کا حوالہ دینا چاہوں گا جو کنٹرا کے ایک نیوز چیانل نے نشر کی، جس میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ہیلی کاپٹر کے ذریعہ عوام میں پیسے بانٹے جائیں گے تو اس کی تردید سب سے پہلے PIB نے کی۔ جی ہاں یہی وہ ادارہ ہے جو مرکزی حکومت کی جانب سے میڈیا کے اداروں سے رابطہ رکھتا ہے اور حکومتی سرگرمیوں، اطلاعات اور پروگراموں کی ترسیل کا ذمہ دار ہے۔
اب ذرا مہاراشٹرا کے علاقے پال گھر میں ہجومی تشدد کے نتیجے میں مرنے والے دو سادھوؤں اور ان کے ڈرائیور کی ہلاکت کی خبر کا تجزیہ کیجیے۔ مہاراشٹرا حکومت خود نہیں چاہتی کہ اس ہجومی تشدد کو فرقہ وارانہ رنگ دیاجائے تو چیف منسٹر مہاراشٹرا سے لے کر وہاں کے وزیر داخلہ باضابطہ طور پر حقائق میڈیا اور عوام کے سامنے پیش کر کے ان فرضی خبروں اور جھوٹی اطلاعات کا پردہ فاش کر رہے ہیں جس میں سادھوئوں کی ہلاکت کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔
اخبار دی ہندو کی 22؍ اپریل کی خبر میں مہاراشٹرا کے وزیر داخلہ کے حوالے سے بتلایا گیا کہ پالگھر میں ہجومی تشدد برپا کر کے تین افراد کو ہلاک کرنے کے الزام میں جن 101 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں ایک بھی مسلمان نہیں ہیں۔ اگر مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ ہجومی تشدد کے لیے مسلمان ذمہ دار نہیں کی وضاحت نہیں کرتے تو شائد عوام کا بڑا طبقہ ان جھوٹی خبروں اور غلط اطلاعات پر شائد کوئی انتہائی اقدام کر بیٹھتا۔ کیونکہ بعض مفادات حاصلہ تو چاہتے تھے پالگھر کے ہجومی تشدد کی ہلاکتوں کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے کر اپنی روٹیاں سینکیں۔قارئین ان دو مثالوں سے میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جھوٹی خبر یا غلط اطلاع حکومتوں کے خلاف بھی ہوتی ہیں۔ حکومت اور حکومتی ادارے باضابطہ طور پر بالکل پروفیشنل انداز میں اس کی وضاحت کرتے ہیں اور اپنی صفائی پیش کرتے ہیں۔

میڈیا نہ صرف ایک پروفیشن ہے بلکہ ایک صنعت ہے، جہاں خطیر سرمایہ کاری کے ذریعہ سرمایہ کار اپنے منافع کو یقینی بناتا ہے۔ جب مارکٹ میں یا بازار میں مسلم مخالف کرنسی ہی سب سے زیادہ قابل قبول بن جائے تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مارکٹ کی ان بنیادوں کو بدلنے کا کام کریں جو مسلم مخالفت کی کرنسی کو مضبوط کر رہی ہے اور یہ کام باضابطہ طور پر میڈیا کے پروفیشن سے وابستہ پروفیشنل تربیت یافتہ لوگ ہی بہتر کرسکتے ہیں۔ شوقیہ سوشیل میڈیا کا استعمال تفریح کا ذریعہ ہوسکتا ہے مگر ایسے شوقیہ سوشیل میڈیا کے صارفین سے پروفیشنل میڈیا کی انڈسٹری کی سازشوں کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔میڈیا میں خوب چلنے والی نفرت کی کرنسی کا جواب محبت کی کرنسی سے دیا جاسکتا ہے۔ جب مسلمان اپنے باصلاحیت، ذہین اور ہنرمند نوجوانوں کو میڈیا میں بڑی تعداد میں بھیجیں اور دنیا بھر میں ہر طرح کے کاروبار کو کامیابی سے چلانے والے مسلم سرمایہ کار ذرا میڈیا انڈسٹری کی طرف بھی توجہ دیں تو ۔بقول اقبالؔ
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]