سخت مقابلہ ، مسلم قیادت پھر نظرانداز کئے جانے کا خدشہ ، جتنی آبادی اُتنی حصہ داری کا تیقن کھوکھلا ثابت ہورہا ہے
نلگنڈہ۔21 اکتوبر ۔ ( ایم اے فہیم کی رپورٹ ) ضلعی صدور کانگریس کمیٹی کے انتخاب کے لئے سرگرمیاں تیز ہوگئی ہے مسلم قیادت کو پھر ایک دفعہ نظر انداز کردیئے جانے کا خدشہ ہے ۔ ریڈی برادری سے تعلق رکھنے والے قائدین کے درمیان تینوں اضلاع میں ضلع کانگریس صدور (ڈی سی سی) کے عہدوں کے لیے سخت مقابلہ جاری ہے۔ فلٹرنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں زبردست تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ذرائع کے مطابق ضلع سوریا پیٹ سے رکن اسمبلی کوڈاڈ پدماوتی ریڈی، ٹورازم کارپوریشن چیئرمین پٹیل رامیش ریڈی، آنجہانی وزیر دامودر ریڈی کے فرزند سروتم ریڈی، ضلع نلگنڈہ سے گملا موہن ریڈی،محمد سراج خان یادادری بھونگیر ضلع کے موجودہ صدر سنجیوا ریڈی، اننت ریڈی، ایم سنجیوا ریڈی سمیت متعدد ریڈی قائدین اس دوڑ میں شامل ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ کوداڈ اور حضور نگر حلقوں کے قائدین نے ریاستی وزیر آبپاشی کیپٹن اتم کمار ریڈی کی اہلیہ اُتم پدماوتی ریڈی کے نام کی تائید کی ہے جب کہ نلگنڈہ میں پارٹی کے مقامی قائدین گملا موہن ریڈی کے حق میں ہیں۔ اسی طرح یادادری ضلع میں سنجیوا ریڈی کو برقرار رکھنے کی تجویز ہے۔بی سی طبقہ کے قائدین سوریا پیٹ، تنگاترتی، بھونگیر اور آلیر حلقوں سے سرگرم ہیں تاہم نلگنڈہ ضلع میں کوئی ایسا بی سی لیڈر سامنے نہیں آیا جو سب کے لیے قابل قبول اُمیدوار قرار دیا جا سکے۔ مبصرین کے مطابق 11ارکان اسمبلی اور 2 ارکان پارلیمنٹ والے متحدہ ضلع نلگنڈہ میں بی سی طبقہ کی موثر نمائندگی نہ ہونا حیران کن امر ہے۔پارٹی حلقوں میں یہ بحث زوروں پر ہے کہ اگر خواتین کے کوٹہ کے تحت پدماوتی ریڈی کو موقع دیا جاتا ہے تو یادادری ضلع میں مالی طور پر مضبوط سنجیوا ریڈی کا نام سب سے آگے رہے گا۔دوسری جانب بی سی طبقہ سے پنا کیلاش اور ناگرجنا ساگر کے راجہ رمیش یادو محمد سراج خان بھی اُمیدواروں کی صف میں ہیں۔ دونوں نوجوان قائدین تلنگانہ تحریک میں سرگرم کردار ادا کرچکے ہیں لیکن انھیں مالی اور سیاسی سطح پر خاطر خواہ مدد حاصل نہیں ہے۔ ان کے سیاسی مستقبل کا انحصار سینئر قائدین اُتم کمار ریڈی، کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی، جانا ریڈی اور راجگوپال ریڈی کی حمایت پر ہے۔پارٹی کے اندرونی حلقوں میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ اگر ریڈی یا بی سی کو ڈی سی سی کا عہدہ نہ دیا گیا تو ایس سی یا دیگر طبقات کو ترجیح دی جائے۔ سینئر لیڈر کے ملیا کا نام بھی نمایاں طور پر زیرِ غور ہے۔دریں اثنامسلم قائدین نے شکوہ کیا ہے کہ حکومت اور پارٹی کے عہدوں میں مسلمانوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس قائد واپوزیشن لوک سبھا قائد راہول گاندھی نے انتخابات کے موقع پر عوام کو اس بات کا تیقن دیا تھا جس کی جتنی آبادی اُن کی اتنی ہی حصہ داری پارٹی اور حکومت میں دی جائے گی لیکن ان کا یہ تیقن کھوکھلا ثابت ہو رہا ہے ۔ ریاست میں موجودہ سرکار ان کے اس تیقن کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے ، اس سے مسلمانوں کی امیدوں و توقعات پارٹی اور حکومت سے متعلق ختم ہوتی جارہی ہے ۔ ضلع کے مسلم قائدین ابھی بھی پارٹی ہائی کمان اور اعلی قیادت کے پر نظر جمائے ہوئے ہیں تاکہ انہیں راہول گاندھی کے اس تیقن پر کچھ عہدے حاصل ہو سکتے ہیں کے اس کے باوجود کانگریس میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونا تشویشناک اور افسوسناک ہے۔ پارٹی مبصرین کے مطابق آئندہ چند دنوں میں ضلع صدور کے تقرر کے ساتھ تلنگانہ کانگریس میں اندرونی طاقت کے توازن کا نیا نقشہ واضح ہو جائیگا۔ اور پارٹی میں مسلم قیادت اور مسلمان صرف رائے دہندے ہی بن کر رہ جائیں گے۔