نندی گرام واقعہ کو موضوع بحث نہ بنانے بی جے پی قائدین کو ہدایت

   

نیلم پانڈے
بی جے پی کی مرکزی قیادت نے مغربی بنگال میں اپنے لیڈروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ گزشتہ ہفتہ نندی گرام میں چیف منسٹر ممتابنرجی پر ہوئے مبینہ حملے کے بارے میں کوئی بحث و مباحث نہ کریں کیونکہ اس سے ممتابنرجی کو بہت زیادہ تشہیر مل جائے گی اور ان کے اس طرح بحث و مباحث کرنے ممتابنرجی کو غیر ضروری ہمدردی حاصل ہوسکتی ہے۔ دی پرنٹ کے ذرائع کو مختلف ذرائع سے یہ باتیں معلوم ہوئیں۔ ذرائع کے مطابق بی جے پی کی مرکزی قیادت کی یہ ہدایت نئی دہلی میں پارٹی سربراہ جے پی نڈا کی قیام گاہ پر منعقدہ مغربی بنگال بی جے پی یونٹ کی کور کمیٹی کے اجلاس کے دوران دی گئی۔
پارٹی کے سینئر قائدین نے اس بات کا اظہار کیا کہ حملے سے متعلق ممتابنرجی کے متضاد بیانات نے انہیں عوام کے سامنے پہلے ہی بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسے میں اس مسئلہ پر بہت زیادہ واضح کرنا اور بیانات جاری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اس کی بجائے ہمیں چاہئے کہ اپنی حکمرانی کے ماڈل اور حکومت مغربی بنگال کی خامیوں کو اجاگر کرنے پر ساری توجہ مرکوز کی جائے۔ کور کمیٹی کے اجلاس میں شریک ایک سینئر بی جے پی قائد کے حوالہ سے یہ باتیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کور کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے اور انہوں نے بھی یہی کہا کہ اگر اس مسئلہ پر بہت زیادہ باتیں کی جائیں یا موضوع بحث بنایا جائے تو نندی گرام انتخابی مہم میں توجہ حاصل کرلے گا اور ممتابنرجی اپنی حکومت کی خامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے اسے استعمال کریں گی۔ بی جے پی لیڈر کے مطابق بحیثیت ایک پارٹی ہمیں جو کہنا تھا ہم نے کہہ دیا ہے جبکہ حکام نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ممتابنرجی پر حملہ نہیں کیا گیا بلکہ وہ ایک اتفاقی حادثہ تھا اور اس تعلق سے اب عوام بھی جان چکی ہے۔ ان حالات میں مبینہ حملے کے بارے میں بہت زیادہ باتیں کرنے سے ممتابنرجی کو عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس لیڈر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممتا کو خود اس واقعہ کے بارے میں بات کرنے دیجئے کیونکہ ان کے بیانات میں پہلے سے ہی کئی متضاد باتیں اور یوٹرن آرہے ہیں اور جو ابتدائی تحقیقاتی رپورٹس منظر عام پر آئی ہیں ان سے ممتابنرجی کا موقف آشکار ہوگیا ہے۔ ہماری مہم میں ممتا حکومت کی ناکامیوں پر ساری توجہ مرکوزکردینی چاہئے اور عوام کو یہ بتانا چاہئے کہ ہم کس طرح بنگال کو دوبارہ سنہری بنگال بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کا 8 مرحلوں میں انعقاد عمل میں آئے گا۔ ان ا نتخابات میں بی جے پی اقتدار حاصل کرنے جان توڑ کوشش کررہی ہے جبکہ ممتا کا وقار بھی داؤ پر لگا ہوا ہے جو اقتدار کی برقراری کے لئے سخت جدوجہد کررہی ہے اور بی جے پی کی جارحانہ مہم کا جارحانہ انداز میں جواب دے رہی ہیں۔ بی جے پی مغربی بنگال یونٹ کی کور کمیٹی کے اجلاس میں شریک ایک اور لیڈر نے بتایا کہ ان لوگوں نے مرکزی قیادت کو نندی گرام واقعہ کی تمام تفصیلات فراہم کردی ہیں۔ جس دن نندی گرام واقعہ پیش آیا اس کے فوری بعد ترنمول کانگریس کے قائدین نے یہ الزام عائد کیا کہ حملہ منصوبہ بند تھا۔ اس کے چند دن بعد خصوصی مبصرین کی ایک ٹیم نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو بتایا کہ انتخابی مہم کے دوران ممتابنرجی کو جو زخم آئے وہ حادثاتی نوعیت کے ہیں۔
خود الیکشن کمیشن نے جو کہا وہ بھی خصوصی مبصرین کی رپورٹ میں اختیار کردہ موقف کی تائید کرتا ہے۔ مبصرین کی رپورٹ میں اس بات کا اشارہ دیا گیا کہ ممتابنرجی کو جو زخم آئے ہیں وہ دراصل سیکوریٹی انتظامات میں کوتاہیوں کا نتیجہ تھے۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن نے ڈائرکٹر سیکوریٹی وویک سہائے آئی پی ایس کی معطلی کا حکم دیا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ مسٹر وویک سہائے اس واقعہ کو روکنے اور زیڈ پلس سیکوریٹی کی حامل ممتابنرجی کے تحفظ میں ناکام رہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی حکم دیا کہ پروین پرکاش سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پوربا مدنیپور کو فوری اثر کے ساتھ معطل کیا جائے اور ساتھ ہی ان کے خلاف بندوبست میں سنگین ناکامی کے الزامات عائد کئے جائیں۔ اس معاملہ میں بی جے پی سے کہیں زیادہ الیکشن کمیشن آف انڈیا سرگرم دکھائی دیتا ہے۔ اس نے قبل ازیں مغربی بنگال کے چیف سکریٹری الاپون بندوپادھیائے سے اس واقعہ کے بارے میں رپورٹ طلب کرلی۔ ان کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ممتابنرجی اپنی ہی کار کے دروازے کو زور سے بند کئے جانے کے نتیجہ میں زخمی ہوئیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ مبہم ہے اور اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔ الیکشن کمیشن کو پولیس نے بھی جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے بارے میں بی جے پی قائدین کہتے ہیں کہ پولیس نے بھی اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ نندی گرام میں ممتابنرجی کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ حملہ نہیں بلکہ حادثہ تھا۔ تاہم ممتابنرجی کی پارٹی اس بات پر مصر ہیکہ یہ ایک منصوبہ بند حملہ تھا جس کا جواب عوام بی جے پی کو اپنے ووٹ کے ذریعہ دیں گے۔