ٹرمپ اور نوبل انعام کمیٹی دونوں ہی اپنی ضد پر قائم ، ہم کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے ، کمیٹی کا موقف
نیویارک ۔ 12 ستمبر (ایجنسیز)اگلے ماہ امن کے نوبل انعام کو جیتنے کی صدر ٹرمپ کی حد سے بڑی ہوئی خواہش میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے اور اس کی وجہ ناروے سے تعلق رکھنے والی نوبل انعام کمیٹی کا ضدی پن کی حد تک اپنے اصولوں پر قائم رہنا ہے۔ جس کے ایک رکن نے ‘اے ایف پی’ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ٹرمپ کی رٹ لگانے کا دباؤ متاثر نہیں کر سکتا۔امریکی صدر ٹرمپ ماہ جنوری سے وائٹ ہاؤس میں دوبارہ آنے کے بعد مسلسل اپنے لئے امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ اپنی اس خواہش و کوشش کو انہوں نے ملک کے اندرون سے بیرون تک پھیلا رکھا ہے اور وہ غزہ میں 2 سال سے جنگ جاری رکھنے پر مصر اسرائیلی ریاست کے وزیراعظم نیتن یاہو سے بھی اس سلسلے میں حمایت لیتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ٹرمپ نے یہ واضح کہا ہے کہ وہ عزت و وقار کی علامت انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی انعام ان کے مدمقابل رہنے والے سابق ڈیموکریٹ امریکی صدر اوباما کو 2009 میں مل چکا ہے۔ 79 سالہ ارب پتی ٹرمپ اس ’عزت‘ کو پانے کیلئے ہر کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو مستحق ثابت کر سکیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے 6 جنگیں رکوائی ہیں۔غزہ کی جنگ جو ابھی جاری ہے اور یوکرین کی جنگ ان دونوں کے حوالے سے بھی وہ باور کرا رہے ہیں کہ وہ انہیں ختم کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔اگرچہ صدر ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسی پر دنیا بھر میں تنقید بھی جاری ہے کہ وہ آج تک اسرائیل کی غزہ جنگ کی مکمل حمایت کرنے والے صدر ہیں اور انہیں کی ’آشیر باد‘ کی وجہ سے اسرائیل کے غزہ کے علاوہ لبنان، شام، یمن، ایران اور قطر تک حملے ممکن ہو سکے ہیں۔ خود ٹرمپ کے اپنے فیصلوں میں بھی بعض اقدامات غیر معمولی ہیں۔ جس میں ان کا امریکی محکمہ دفاع کو جنگی محکمہ اور پینٹاگون میں وزیر دفاع کو وزیر جنگ کے نام سے بدلنے کی حالیہ کوششیں کہ وہ ایک طرف امن کے نوبل انعام کی کوشش میں ہیں تو دوسری طرف نہ صرف بعض دوسری جنگوں کی حمیات میں ہیں بلکہ خود اپنے ہاں بھی جنگ کے لفظ کو زیادہ مستعمل دیکھنا چاہتے ہیں۔اس پس منظر میں نوبل انعام کمیٹی کے رکن کرسٹین برگ ہارپبکن نے ‘اے ایف پی’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلاشبہ ہم نوبل انعام کے متوقع فیصلوں سے متعلق میڈیا میں آنے والی چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔
ہندوستان پر 50 فیصد شرحیں عائد کرنا آسان فیصلہ نہیں تھا ۔ ڈونالڈ ٹرمپ
شرحوں کے نفاذ سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوئے ۔ بات چیت بھی جاری ۔ صدر امریکہ کا انٹرویو
واشنگٹن 12 ستمبر ( ایجنسیز ) صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ ہندوستان پر 50 فیصد شرحیں عائد کرنے کے فیصلے سے دونوںملکوں کے مابین تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے فاکس نیوز کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان پر روسی تیل خریدنے کی پاداش میں یہ شرحیں عائد کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان روس کا سب سے بڑا گاہک تھا ۔ میںنے ہندوستان پر روسی تیل خریدنے پر 50 فیصد شرحیں عائد کردی ہیں۔ تاہم ایسا کرنا آسان نہیں ہے ۔ ٹرمپ کی جانب سے تحدیدات نافذ کئے جانے کے بعد ہندوستان نے اس فیصلے پر شدید تنقید کی تھی اور ملک میں مخالف امریکہ جذبات ابھر ے ہیں۔ روس کے خلاف مغربی ممالک کی جانب سے تحدیدات عائد کی گئی ہیں کیونکہ روس یوکرین کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ٹرمپ نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ہندوستان کے خلاف شرحیں عائد کرنے کا فیصلہ بڑا تھا اور اس کے نتیجہ میں ہندوستان سے اختلافات بڑھ گئے ہیں۔ ہند ۔ امریکہ تعلقات ٹرمپ کی تجارتی جنگ کی وجہ سے متاثر ہوکر رہ گئے ہیں اور اقل ترین شرحوں پر بات چیت ناکام ہوگئی ہے ۔ ہندوستان نے اپنی زرعی اور ڈیری مارکٹ کو کھولنے سے انکار کردیا تھا ۔ دونوں ملکوں کے مابین باہمی تجارت ہر سال 190 بلین ڈالرس سے زیادہ کی ہوگئی ہے ۔ ٹرمپ نے ہندوستان پر سب سے پہلے 25 فیصد شرحیں عائد کی تھیں اور پھر کہا تھا کہ 27 اگسٹ کو اسے دوگنی کردیا جائیگا ۔ یہ اضافی شرحیں بھی ہندوستان پر عائد کردی گئی ہیں۔ کہا گیا ہے کہ واشنگٹن کی مخالفت کے باوجود ہندوستان نے روس سے تیل کی خریدی میں اضافہ کردیا ہے جس کی وجہ سے ہندوستان پر اضافی 25 فیصد شرحیں لاگو کی گئی ہیں ۔ کہا گیا کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا الزام ہے کہ ہندوستان کی جانب سے جو تیل خریدا جا رہا ہے اس سے روس کو اضافی مالیہ وصول ہو رہا ہے اور وہ یوکرین کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ امریکی صدر نے کہا کہ ان کا انتظامیہ ہندوستان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے جلد بات کریں گے ۔ حالیہ عرصہ میں ٹرمپ نے ہندوستان کے تعلق سے اپنے لہجے اور رویہ میں نرمی پیدا کی ہے ۔