پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ
ہمارے وطن عزیز میں اگرچہ حکومت بلند بانگ دعوے کرتی ہے، لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو اس کے دعوے ہمیشہ کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کو یاد ہوگا کہ مودی جی نے 2014ء کے عام انتخابات کی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ اگرچہ بی جے پی اقتدار میں آتی ہے تو ہر سال 2 کروڑ بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتیں یا روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں گے لیکن مودی کا وہ وعدہ وفا نہ ہوسکا۔ دراصل آج ملک کے اکثر نوجوانوں کے پاس ملازمتیں ؍ روزگار نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ملک کے بیشتر نوجوان بیروزگار کیوں ہیں اور ملک میں بیروزگاری کی شرح اس قدر زیادہ کیوں ہوگئی ہے۔ ہمارے ملک میں بیروزگاری کی شرح اس قدر خطرناک حد تک زیادہ نہیں ہوئی تھی۔ حالیہ عرصہ کے دوران مائیکرو، چھوٹی اور متوسط انٹرپرائزریز (کاروباری اداروں ) یا ایم ایس ایم ای) شعبہ سے متعلق دو رپورٹس منظر عام پر آئیں ۔ ایک رپورٹ اسمال انڈسٹریز ڈیولپمنٹ بینک آف انڈیا (SIDBI) اور دوسری رپورٹ نیتی آیوگ نے تیار اور پیش کی اور دونوں کوئی خانگی ادارے نہیں ہیں، اس کا مطلب دونوں سرکاری اداروں نے یہ رپورٹس پیش کی ہیں۔ اس کے علاوہ (ASUSE) Anual Survey of Incorporated Sector Enterprize بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔
بنیادی حقائق اور خصوصیات: مذکورہ دونوں رپورٹس سے وہ کونسے بنیادی حقائق ہیں جن کا تعلق مائیکرو، اسمال اور میڈیم (انتہائی چھوٹی، چھوٹی اور متوسط صنعتوں) سے ہے، حاصل کی جاسکتی ہیں۔
٭ موجودہ درجہ بندی کے تحت مائیکرو، انٹرپرائزر میں سرمایہ کاری کی جو حد ہے، وہ 2.5 کروڑ روپئے تک ہے جبکہ ٹرن اوور یعنی کاروبار کی حد 10 کروڑ روپئے تک مقرر کی گئی ہے، اسی طرح چھوٹی صنعتوں کیلئے سرمایہ کاری کی حد 25 کروڑ اور ٹرن اوور کی حد 100 کروڑ روپئے مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح متوسط صنعتوں میں سرمایہ کاری کی حد 125 کروڑ روپئے اور ٹرن اوور کی حد 500 کروڑ روپئے مقرر کی گئی ہے، اس درجہ بندی سے یہ واضح ہوجائے گا کہ ہندوستان میں کچھ ہزار کو چھوڑ کر جو انٹرپرائزر اور صنعتیں ہیں، وہ MSME ہیں۔
٭ ایم ایس ایم ایز کی جملہ تقسیم زیادہ تر مائیکرو انٹرپرائزرس کے حق میں رہی ہے چنانچہ مائیکرو انٹرپرائزرس کے شیئر یا حصے 98.64% ، چھوٹی صنعتوں کا حصہ 1.24% اور متوسط صنعتوں کا حصہ صرف 0.12% ہے۔ اونرشپ پروپرائٹرشپ ہے (59%) ، پارٹنرشپ 16% ، ایل ایل پی 1% جبکہ پرائیویٹ کمپنی لمیٹیڈ 23% اور پبلک کمپنی لمیٹیڈ 1%۔
٭ ہندوستان میں ایک اندازہ کے مطابق 7,34,00,000 ایم ایس ایم ایز ہیں ان میں 6,20,00,000 اُدیم پورٹل پر رجسٹرڈ ہیں۔ یہ اعداد و شمار مارچ 2025ء تک کے ہیں۔
٭ ایم ایس ایم ای سیکٹر میں کریڈٹ کی جو خلیج ہے، وہ 24% (تقریبا 30 لاکھ کروڑ روپئے) ہے، اس کے برعکس خدمات کے شعبہ میں یہ خلیج 27% اور ایسی صنعتوں میں جو خواتین کی ملکیت ہیں، 35% ہے۔
٭ مالی سال 2023-24 میں ہندوستان کے Merchandise Exports میں ایم ایس ایم ایز کا حصہ تقریباً 45% رہا۔ اگر دیکھا جائے برآمدات کرنے والی MSMEs کی تعداد سال 2024-25 میں 1,73,350 تھی۔ (یہ ایم ایس ایم ایز کی جملہ تعداد کا صرف 1% حصہ بنتا ہے) جو اہم موضوعات یا اشیاء برآمد کی گئیں ان میں تیار ملبوسات (ریڈی میڈ گارمنٹس) قیمتی پتھر اور زیورات، چرم کی مصنوعات، ہینڈی کرافٹس، پروسیڈ فوڈ اور کاروں یا گاڑیوں کے پرزے شامل ہیں۔ ان میں ایک کو چھوڑ کر تمام کسٹم ٹیکنالوجی کی حامل مصنوعات ہیں۔
٭ اہم بات یہ ہے کہ ایم ایس ایم ایز کیلئے ڈھیر ساری سپورٹ اسکیمیں اور ترقیاتی اسکیمیں ہیں۔ نیتی آیوگ اور ASUSE کی رپورٹس پڑھتے ہوئے میں نے کم از کم دو سبسڈی اسکیمات، چار گریڈ گیارنٹیز اسکیمیں اور کم از کم 13 ترقیاتی اسکیموں کی گنتی کی ہے۔ بجٹ برائے سال 2025-26 میں پہلی مرتبہ کے انٹرپرائیزس کیلئے ایک اسکیم کا اعلان کیا گیا اور ساتھ ہی اس میں ایک کریڈٹ کارڈ اسکیم کا بھی اعلان کیا گیا۔ بجٹ میں فنڈس کیلئے فنڈ اور سڑکوں و فٹ پاتھ پر کاروبار کرنے والوں کیلئے PM Svanidhi کا بھی اعلان کیا گیا۔
٭ اگر دیکھا جائے تو ایم ایس ایم ایز روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایم ایس ایم ایز کی جانب سے روزگار یا ملازمتوں کے جو مواقع پیدا کئے گئے ہیں، ان کی تعداد تقریباً 26 کروڑ ہے۔ مذکورہ نکات پیش کرنے کے بعد ایک مرکزی سوال ہمارے ذہنوں میں گردش کرتا ہے اور وہ ایم ایس ایم ایز کو درپیش چیلنج سے متعلق ہے، ان چیلنج کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ سب سے بڑا چیلنج مہارت کی حامل افراد قوت کی کمی ہے ۔ ساتھ ہی مہارت کی خلیج کو پانٹنا یا گھٹانا بھی ایک چیلنج ہے۔ دوسری طرف باصلاحیت نوجوانوں (افرادی قوت) کو اس شعبہ کی طرف مائل کرنا بھی ایک چیلنج کی شکل میں موجود ہے۔ یہ جو حقائق ہیں ہمیں ملک میں بیروزگاری کی تمام کہانی سناتے ہیں۔ ایک اور حقیقت بھی ہر کوئی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ ایسی بڑی صنعتیں (جس میں 125 کروڑ روپیوں سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی اور جس کا ٹرن اوور 500 کروڑ روپئے ہوں) ایسے افراد کی خدمات حاصل کرتی ہیں یعنی ایسے افراد کو ملازمتیں فراہم کرتی ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں اور اعلیٰ مہارت رکھتے ہو۔ اگر انہیں افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے اور باصلاحیت و مہارت کے حامل افراد کو راغب کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہوں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ؟ اس معاملہ میں قابل افسوس لیکن ناگزیر جو نتائج ہیں، پہلا تو یہ کہ ملازمتوں کیلئے جو لوگ درخواستیں دیتے ہیں یعنی درخواست گزار وہ تعلیم یافتہ اور مہارت کے حامل نہیں ہوتے جس سے کہ انہیں ملازمتیں فراہم کی جائیں اور دوسری بات یہ جن ملازمتوں کی پیشکش کرتے ہیں وہ پرکشش نہیں ہوتی اور اس کی اہم و جہ یہ ہے کہ صنعتوں کی ساخت ہے یا معاوضہ (تنخواہیں) ہے جو بہت کم ہوتی ہیں۔ بہرحال ان تمام شناختی حقائق اور بیروزگار کے جو نتائج ہیں اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ آخر ہمارے ملک کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح خطرناک حد تک زیادہ کیوں ہے ؟ آپ کو بتادیں کہ اپریل 2025 میں ہندوستان کی جملہ آبادی 146کروڑ تھی جبکہ افرادی قوت کی شرح شرکت (LFPR) 55.6 فیصد یا تقریباً 81 کروڑ ہے ۔ اسی طرح ورکنگ پاپولیشن ککا تناسب 52.8 فیصد یا تقریباً 77 کروڑ ہے ۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ حکومت نے بیروزگاری کے بارے میں جو شرح بتائی ہے وہ چار کروڑ ہے جو 50.0فیصد کے مساوی ہے۔