ظفر آغا
ریاست ہریانہ کے نوح اور گروگرام علاقوں میں چند روز قبل جو فرقہ پرستی کا ننگا ناچ ہوا، وہ محض ایک جھلک تھی۔ کیونکہ سنہ 2024 تک ایسے واقعات کب اور کہاں پیش آ جائیں کہنا مشکل ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ یہ سب تو آئے دن ہوتا رہے گا تو غلط نہ ہوگا۔ کب کہاں کوئی مسجد خاکستر ہو جائے، کس مسجد کا پیش امام مار دیا جائے، کہاں کون شخص ماب لنچنگ کا شکار ہو جائے، کس ٹرین پر کتنے مسلم مسافر گولی کا نشانہ بن جائیں، یہ تو اب اس ملک کی مسلم اقلیت کی قسمت جانے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یکایک یہ فرقہ پرستی کا طوفان کیوں؟ اس کا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ بی جے پی خیمہ میں زبردست گھبراہٹ ہے۔ لیکن گھبراہٹ کیوں! اس گھبراہٹ کا سبب آنے والے چند سال سے لے کر سنہ 2024 تک ملک میں ہونے والے ریاستی اور پارلیمانی چناؤ ہیں۔ لیکن بقول بی جے پی کے اسٹار لیڈر نریندر مودی کے بھگوا پارٹی کو چناؤ جیتنے کے لیے وہ خود اکیلے کافی ہیں۔ لیکن پریشانی اسی بات کی ہے کہ مودی جی اب کھوٹا سکہ ہوتے جا رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں ہونے والے ریاستی چناوی نتائج پر ایک نگاہ ڈالیے تو آپ کو صاف نظر آ جائے گا کہ اب نریندر مودی کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ بنگال، دہلی، ہماچل اور ابھی حال میں کرناٹک میں ہوئے چناؤ ٹوٹتے مودی سحر کی چند مثالیں ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس سال کے آخر سے اگلے سال مئی تک ملک میں چناؤ ہی چناؤ ہونے ہیں۔ جلد ہی مدھیہ پردیش، راجستھان اور تلنگانہ کے چناؤ ہونے ہیں۔ مبصرین کی رائے یہ ہے کہ بی جے پی کے لیے ان تینوں ریاستوں میں حالات ناسازگار ہیں۔ پھر چند اور ریاستی چناؤ اور اس کے فوراً بعد پارلیمانی دنگل۔ اگر یہ ریاستیں ہماچل و کرناٹک کی طرح ہاتھوں سے جاتی رہیں تو پارلیمنٹ میں کیا ہوگا!
بس یہی سوال ہے جس سے بی جے پی بے چین ہی نہیں بوکھلا رہی ہے۔ اب کرو تو کرو کیا! سنگھ اور بی جے پی کے پاس چناؤ جیتنے کا محض ایک ہی فارمولہ ہے اور وہ ہے ملک میں فرقہ پرستی کی آگ لگاؤ اور مسلم منافرت کے سیلاب میں چناوی ناؤ کھیتے چلے جاؤ۔ میوات اور گروگرام اسی فارمولے کا پیش خیمہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے واقعات کا سلسلہ اب اور بڑھتا چلا جائے گا، بلکہ اس میں شدت آتی جائے گی۔ کیونکہ بی جے پی کی گھبراہٹ کے دو تین اور اہم اسباب ہیں۔ اولاً جیسا کہا کہ اب عوام کو مودی جی پر سے یقین ختم ہو رہا ہے۔ بازاروں میں روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں میں جو آگ لگی ہے، کسی نے یہ تصور نہیں کیا تھا کہ معمولی سا شئے ٹماٹر تین سو روپے سے بھی تجاوز کر جائے گا۔ یہی حال تمام سبزیوں اور دیگر ضروریات زندگی کا ہے۔ پھر نوکریاں بھی ملک سے اڑ چکی ہیں۔ مودی جی کے آئے دن نت نئے وعدے اب خالی پیٹ کام نہیں آ رہے۔ وہ دور گیا جب نوٹ بندی کی پریشانیاں اور لوگوں کی موت کے باوجود عوام مودی جی کے وعدوں پر یقین کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بی جے پی کی سمجھ میں آ گئی ہے اور اسے پریشان کر رہی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ پچھلے ماہ چوبیس بی جے پی مخالف پارٹیاں بی جے پی کے خلاف چناؤ لڑنے کو متحد ہو چکی ہیں۔ یعنی اب ہونے والے چناؤ میں بی جے پی مخالف ووٹ بکھرے گا نہیں۔ اس بات سے بی جے پی بوکھلائی ہوئی ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ اب راہول گاندھی وہ راہول گاندھی نہیں رہے جن کا جب چاہے مذاق بنائیے، اور چٹکیوں میں اڑا دیجیے۔ ایک بھارت جوڑو یاترا نے راہول گاندھی کو حزب اختلاف کا سب سے قدآور لیڈر بنا دیا۔ اب حزب اختلاف کے پاس مودی کا جواب موجود ہے۔ حزب اختلاف کی اس کامیابی سے بی جے پی کی نیند اڑ گئی ہے۔
اس بگڑتے سیاسی پس منظر میں بی جے پی کے پاس محض ایک ہی حربہ بچا ہے اور وہ ہے ملک کو فرقہ پرستی کے جہنم میں ڈھکیل دو، تاکہ عام ووٹرس اپنی تمام تر پریشانیاں اور مشکلات بھول کر ایک بار پھر نریندر مودی کو ہندو ہردے سمراٹ سمجھ کر بی جے پی کی جھولی میں اپنا ووٹ ڈال دے۔ میوات اور گروگرام اسی سلسلے کا محض ایک ٹریلر تھا۔ خدا نہ کرے سارا ملک سنہ 2002 کے گجرات میں بدل دیا جائے۔ وہ سنہ 2002 کی مسلم نسل کشی ہی تھی جس نے نریندر مودی کو سارے ملک کا ہندو ہردے سمراٹ بنایا تھا۔ بس اللہ ہی خیر کرے!