نوٹ بندی کے تین پہلوحکومت کی جیت دراصل ہار ہے

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مرکزی حکومت کو نوٹ بندی کے جائز یا ناجائز ہونے کے سوال پر لڑی گئی قانونی جنگ میں کامیابی مل گئی ہے اور سپریم کورٹ میں مرکز نے یہ لڑائی 4-1 سے جیت لی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ایک دستوری بینچ نے نوٹ بندی سے متعلق مودی حکومت کے اقدام کو ناجائز اور غیرقانونی قرار دیتے ہوئے داخل کردہ تمام درخواستوں اور درخواست گذاروں کے استدلال کو مسترد کردیا۔ ایک مرتبہ ہمارے ملک کی اعلیٰ عدالت یعنی سپریم کورٹ کسی قانونی فیصلہ کا اعلان کردیتی ہے تو پھر عدالت کا فیصد ماننا اسے تسلیم کرنا سب کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ سب کیلئے اسے ماننا لازم ہوجاتا ہے جبکہ اکثریتی ججس کے فیصلے سے اتفاق کرنے والا فیصلہ (اس مقدمہ میں 5 میں سے 4 ججس نے حکومت کے حق میں اور ایک جج نے مخالفت میں فیصلہ دیا ہے، اپنی رائے کا اظہار کیا ہے) دراصل قانون کا ایک گہرا جذبہ ہے۔ اگر ہم نوٹ بندی اور اس کے اثرات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ سپریم کورٹ نے نوٹ بندی نافذ کئے جانے سے متعلق حکومت کے دلائل کو قبول کیا اور درخواست گذاروں کے استدلال اور دلیلوں کو مسترد کردیا۔ اب دیکھتے ہیں عدالت نے اپنے تیار کئے گئے سوالات پر کیا کہا اور اس کا موقف کیا تھا۔
(1) ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ کے سیکشن 26 کی ذیلی دفعہ (2) کے تحت مرکزی حکومت کا یہ اختیار ہے کہ وہ بینک نوٹوں کی تمام سیریز کے کرنسی نوٹوں کے چلن پر پابندی (نوٹ بندی) عائد کرسکتی ہے۔ (2) عدالت نے کہا کہ آر بی آئی ایکٹ 26 کی ذیلی دفعہ (2) جائز ہے اور اس وجہ سے اسے کالعدم نہیں کیا جاسکتا۔(3) موجودہ کیس میں یعنی جس کیس کی عدالت سماعت کررہی ہے، اس کے فیصلہ سازی کے عمل میں کوئی خامی یا نقص نہیں تھا۔ (4) نوٹ بندی پر کافی اعتراضات کئے گئے ، کبھی بھی اس نوٹ بندی تناسب کی آزمائش پر پورا اُترنے میں کامیاب رہی۔ (5) نوٹ بندی نافذ کرتے ہوئے نوٹوں کے تبادلے کیلئے جو مدت دی گئی تھی، وہ مناسب تھی۔ (6) آر بی آئی (ریزرو بینک آف انڈیا کو یہ اختیار نہیں کہ وہ مقررہ مدت کے بعد جن کرنسی نوٹوں کے چلن پر پابندی عائد کی گئی، اسے (تبادلے) کیلئے قبول کرے۔
ٹیکنالوجی قانونی سوالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے قارئین کی دلچسپی کیا ہوگی، وہ جواب 1 اور 3 میں درج ہیں جہاں تک عدالت کا سوال ہے، مرکز کے نوٹ بندی اختیار پر عدالت کا کہنا ہے کہ یہ پارلیمنٹ کے اختیار کے مساوی ہے بشرطیکہ اس کی سفارش ہو یعنی فوری اثر کے ساتھ آر بی آئی نے اس کی سفارش کی ہو۔ فیصلہ سازی کے عمل پر عدالت نے کہا کہ آر بی آئی کے سنٹرل بورڈ نے تمام متعلق پہلوؤں کو مدنظر رکھا جن پر کابینہ نے بھی غور کیا۔ عدالت عظمیٰ نے کچھ مشاہدات اور ریمارکس بھی کئے جو قارئین کیلئے باعث دلچسپی ہوں گے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ اس سوال میں جانے کی اس کے یہاں مہارت نہیں ہے کہ نوٹ بندی کے مقصد پورے ہوئے ہیں یا نہیں۔ نوٹ بندی سے عوام کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور جن مصیبتوں سے گذرنا پڑا، اس بارے میں عدالت نے کہا کہ عوام کو مشکلات صرف اس لئے ہوئیں کیونکہ چند شہریوں کو مشکلات برداشت کرنا پڑا، ایسے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت کا فیصلہ (نوٹ بندی سے متعلق) ناقص تھا۔ اس طرح قانونی مسائل کا حکومت کے حق میں فیصلہ دیا گیا۔
نوٹ بندی کا سیاسی پہلو
قانونی سوالات پر عدالت کے جواب سے شاید مذکورہ دلیل کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے لیکن نوٹ بندی کے دیگر دو پہلوؤں پر ایک بحث ضرور شروع ہوگی، ان دو پہلوؤں کے بارے میں انگریزی کے موقر روزناموں ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘، ’’دی ہندو‘‘ اور ’’ٹائمس آف انڈیا‘‘ کے اداریوں میں لکھا گیا ہے۔ ماضی میں دو موقعوں 1946ء اور 1978ء پر اعلیٰ قدر یعنی زیادہ قدر والی کرنسی نوٹوں کے چلن پر ایک آرڈیننس کے ذریعہ پابندی (نوٹ بندی) عائد کی گئی تھی اور پھر اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے ایک قانون کے ذریعہ تبدیل کردیا گیا۔ نوٹ بندی کا وہ اقدام مکمل طور پر مقننہ کا اختیار تھا۔ اس وقت کے ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر نے نوٹ بندی کی تائید کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس لئے پارلیمنٹ کو ایک قانون منظور کرنا پڑا۔ اس طرح نوٹ بندی کا فیصلہ اچھا یا برا تھا۔ لوگوں کو پیش آئی مشکلات (سب کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا)۔ ان تمام کیلئے اس وقت پارلیمنٹ میں قانون منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ ذمہ دار تھے۔ اس دور میں سب سے اچھی بات یہ رہی کہ پارلیمنٹ میں قانون کی توثیق سے پہلے ہی پارلیمنٹ میں نوٹ بندی پر بحث ہوئی اور اس کے تمام پہلوؤں پر عوامی نمائندوں نے اچھی طرح غوروفکر کیا لیکن 8 نومبر 2016ء کو وزیراعظم نریندر مودی کے نافذ کردہ نوٹ بندی کے ضمن میں ویسا کچھ نہیں کیا گیا۔ مودی حکومت نے اپنے عاملانہ اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے نوٹ بندی نافذ کی۔ پارلیمنٹ کا اس میں کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ منطقی طور پر دیکھا جائے تو نوٹ بندی کے اغراض و مقاصد کے حصول میں حکومت کی ناکامی کیلئے عوامی نمائندوں پر کسی قسم کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عوامی نمائندوں کو نوٹ بندی کے نتیجہ میں سامنے آئے معاشی مشکلات کیلئے بھی موردالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 2016ء میں 17.2 لاکھ کروڑ روپئے قدر کی کرنسی چلن میں تھی جو 2022ء میں بڑھ کر 32 لاکھ کروڑ ہوگئی جبکہ حکومت نے نوٹ بندی نافذ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ بلیک منی کا دہشت گردی کیلئے مالیہ کی فراہمی، جعلی کرنسی نوٹوں کی بہتات اور بلیک منی کے چلن کو روکنے کیلئے نوٹ بندی نافذ کی گئی لیکن آج بھی محکمہ انکم ٹیکس یا تحقیقاتی ایجنسیاں اکثر بلیک منی کا پتہ لگاکر اسے ضبط کررہے ہیں حالانکہ نوٹ بندی کے ذریعہ 500 اور 1000 کی نوٹوں کا چلن بند کرنے 2000 اور 500 کی نئی کرنسی نوٹ جاری کئے گئے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ ملک میں ہر روز جعلی کرنسی ضبط کئے جانے کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت ہند نے No Money for Terror (NMFT) پر وزارتی کانفرنس کیلئے مستقل سیکریٹریٹ کی میزبانی کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نے نوٹ بندی کے جو اغراض و مقاصد بتائے تھے، کیا وہ حاصل ہوئے۔ اس پر پارلیمنٹ میں مباحث بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کو حکومت کے Delegated اور پارلیمنٹ، مکمل مقننہ اختیارات (Exective Power) پر بھی مباحث کرنے چاہئے۔عدالتی فیصلے کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ عدالت نے نوٹ بندی کے معیشت پر مرتب منفی اور نقصان دہ اثرات پر غور نہیں کیا اور نہ ہی اس نے عوام کو پیش آئی مشکلات کا جائزہ لیا۔ یہ بھی نہیں دیکھا کہ نوٹ بندی کا مقاصد اور اغراض حاصل بھی ہوئے یا نہیں حالانکہ عوام نے صاف طور پر نوٹ بندی سے متعلق حکومت کے فیصلے پر شدید برہمی ظاہر کی تھی۔ متوسط طبقہ اور غریبوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑآ۔ یومیہ کمائی کرنے والے 30 کروڑ محنت کشوں متوسط اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں ، کسانوں کو بھی کئی ایک پریشانیوں سے گذرنا پڑا۔ حکومت قانونی طور پر لڑائی جیت چکی ہے، لیکن پارلیمنٹ میں مباحث ہوتے ہیں تو اسے شکست ہوگی۔