نپاہ وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ، احتیاطی تدابیر کے بارے میں چوکسی ضروری

   

خنزیر اور چمگاڈر اہم وجہ،بخار، کھانسی جیسی علامات پر ماہر ڈاکٹرس سے رجوع ہوں، گھریلو علاج نقصاندہ،آلودہ غذا ؤں سے پرہیز کی ضرورت

حیدرآباد۔/13ستمبر، ( سیاست نیوز) ملک میں نپاہ وائرس کے پھیلاؤ نے ایک طرف عوام تو دوسری طرف حکومتوں کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ کورونا وائرس کی دو لہر گذرنے کے بعد عوام نے اطمینان کی سانس لی تھی لیکن اس وائرس نے بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کرتے ہوئے خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ نپاہ وائرس اگرچہ پہلی مرتبہ جون 2018 میں کیرالا کے کوزی کوڈ میں دریافت کیا گیا لیکن ملک کے دیگر علاقوں میں وائرس اپنا اثر دکھانے لگا ہے۔ وائرس کی زد میں آنے والے افراد کو موثر علاج کی ضرورت ہے اور صحت یابی کیلئے کافی وقت لگ رہا ہے۔ محکمہ صحت کے ماہرین نے تلنگانہ میں نپاہ وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں عوام کو چوکس رہنے کی اپیل کی ہے۔ وائرس کے نتیجہ میں عام بخار، سردرد، کھانسی، حلق میں درد، سانس میں تکلیف، متلی اور قئے، اعضاء شکنی جیسی علامات دیکھی جارہی ہیں لیکن وائرس پر مکمل قابو پانے میں ڈاکٹرس کو جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ نپاہ وائرس سے بچاؤ کے سلسلہ میں محکمہ صحت نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں پھیل سکتا ہے۔ ناقص غذا بھی وائرس کا عین سبب بن سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق خنزیر اور چمگاڈر کے ذریعہ یہ وائرس عوام میں منتقل ہورہا ہے۔ وائرس کے نتیجہ میں دماغ پر ورم جیسے عوارض وجود میں آرہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ نپاہ وائرس ایشیا میں خاص طور پر بنگلہ دیش اور ہندوستان میں ہر سال اپنا قہر ڈھاتا ہے۔ متاثرہ جانوروں سے قربت وائرس سے متاثر ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ متاثرہ افراد سے دوسروں میں بھی یہ وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ وائرس کی علامتیں چار تا 14 دن میں ظاہر ہوتی ہیں۔ وائرس سے متاثر ہونے کی عام علامتوں میں بخار، سردرد، کھانسی، حلق میں درد، سانس کی تکلیف، قئے، دماغ پر سوجن، کوما اور دیگرشامل ہیں۔ عام طور پر لوگ معمولی بخار سمجھ کر گھریلو علاج کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ اس کیلئے کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع ہونا ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق ہفتہ دس دن مسلسل خصوصی نگہداشت میں علاج کے ذریعہ وائرس کے اثرات کو زائل کیا جاسکتا ہے۔ نپاہ وائرس کی روک تھام کیلئے انسانوں یا جانوروں کیلئے کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے بلکہ صرف علاج ہی واحد حل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 40 تا 75 فیصد کیسس میں اموات واقع ہونے کا خطرہ برقرار ہے۔ نپاہ وائرس 1999 میں سب سے پہلے ملایشیا اور سنگاپور میں خنزیر کے ذریعہ پھیلا تھا اور تقریباً 300 کیسس درج کئے گئے اور 100 سے زائد اموات واقع ہوئی تھیں۔ وائرس پر کنٹرول کیلئے ایک ملین سے زائد خنزیروں کو ہلاک کیا گیا۔ 2018 میں کیرالا کے دو اضلاع کوزی کوڈ اور ملاپورم میں مریضوں کی شناخت کی گئی۔ کیرالا میں 17 اموات واقع ہوئی تھیں۔2001 اور 2007 میں مغربی بنگال میں یہ مرض پایا گیا تھا۔ ماہرین نے وائرس کا پتہ چلانے کیلئے ضروری ٹسٹوں کی بھی نشاندہی کی ہے جن میں آر ٹی پی سی آر، یورین، بلڈ اور دیگر ٹسٹ شامل ہیں۔ وائرس سے بچاؤ کیلئے مشورہ دیا گیا ہے کہ عوام صابن اور پانی سے اپنے ہاتھ وقفہ وقفہ سے صاف کریں۔ بیمار چمگاڈر اور خنزیروں کے رابطہ میں نہ آئیں۔ خنزیروں اور چمگاڈروں کے علاقہ سے خود کو دور رکھیں۔ خنزیروں سے ربط میں آنے والی غذاؤں سے بھی پرہیز کیا جائے۔ نپاہ وائرس کے متاثرہ افراد کا بلڈ حاصل کرنے یا پھر متاثرین سے قربت دوسرے کو وائرس کا شکار بناسکتی ہے۔