نپور شرما کیخلاف سپریم کورٹ کے سخت ریمارکس حکومت کیلئے نوشتہ ٔ دیوار

   

برندا کرت
پیغمبر اسلامؐ کی شان میں نپور شرما کے گستاخانہ ریمارکس نے ملک بھر میں بے چینی کی لہر پھیلا دی۔ عالمی سطح پر بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ ملک کے مختلف مقامات پر پرتشدد واقعات پیش آئے۔ کئی بے قصور لوگوں خاص طور پر کمسن بچوں کی جانیں گئیں۔ اُدے پور میں ایک ٹیلر بھی مارا گیا ۔ اس معاملہ میں ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے تاخیر سے ہی سہی نپور شرما کے خلاف سخت ترین ریمارکس کئے جن سے کم از کم اس خاتون کی گرفتاری کی اُمید تو پیدا ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ بینچ نے کھلی عدالت میں نپور شرما کے خلاف کچھ اس طرح کے ریمارکس کئے جس طرح اُس (نپور شرما) نے ملک بھر میں جذبات بھڑکائے۔ اپنے تبصرہ کے ذریعہ لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح کئے، ایسے میں یہ خاتون (نپور شرما) ملک میں جو کچھ بھی ہوا، اس کیلئے تنہا ذمہ دار ہے۔
واضح رہے کہ نپور شرما کے خلاف مختلف ریاستوں میں ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور اس نے اپنے وکیل کے ذریعہ سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ ان ایف آئی آر کو یکجا کرکے اس کی سماعت دہلی میں کی جائے لیکن سپریم کورٹ نے نپور شرما کی درخواست کو مسترد کردیا اور پھر وہ اپنی درخواست واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔ نپور شرما کی جانب سے گستاخانہ ریمارکس کے تبصروں کے بعد اور پھر اس کے خلاف متعدد ایف آئی آر کے اندراج کے باوجود امیت شاہ کی پولیس نے اس کی گرفتاری کیلئے ایسی سرگرمی نہیں دکھائی جس طرح ’’آلٹ نیوز‘‘ کے شریک بانی محمد زبیر کو گرفتار اور ہراساں و پریشان کرنے میں دکھائی۔ نپور شرما کے خلاف کارروائی نہ کئے جانے اور اس کی عدم گرفتاری سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے عناصر اپنے آپ کو اور اپنے ہم خیال حامیوں کو بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اس معاملے میں ان کیلئے کوئی حد نہیں۔
یہ شاید ہی کوئی راز ہے کہ محمد زبیر کو دہلی پولیس نے گرفتار کیا۔ واضح رہے کہ دہلی پولیس، مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے۔ امیت شاہ کی پولیس نے زبیر کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ انہیں ہراساں بھی کیا۔ محمد زبیر کا قصور یہی تھا کہ انہوں نے نفرت کے سوداگروں (نفرت پھیلانے والوں) کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے نپور شرما کے گستاخانہ تبصروں کا کلپ سوشیل میڈیا پر شیئر کیا تھا جو کسی بھی طرح غیرقانونی نہیں تھا۔ زبیر ہندوستانیوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ بی جے پی کی ترجمان کے عہدہ پر فائز نپور شرما نے انتہائی اشتعال انگیز تبصرہ کیا۔ محمد زبیر کو سچائی منظر عام پر لانے اور دُنیا کو حقائق سے واقف کروانے کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا اور دہلی پولیس نے اپنی انتقامی کارروائی پر پردہ ڈالنے کیلئے محمد زبیر کی جانب سے 2018ء میں شیئر کئے گئے ایک ٹوئٹ کو کھود نکالا۔ اس ٹوئٹ میں رشی کیش مکھرجی کی فلم کے ایک منظر کا حوالہ دیا گیا تھا۔ پولیس کا استدلال تھا کہ اس ٹوئٹ سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے جبکہ چار برسوں سے یعنی 2018ء سے لے کر 2022ء تک کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوئے تھے اور دہلی پولیس نے انتقامی کارروائی کا ارادہ کیا اور اچانک اس ٹوئٹ سے چار سال بعد کس کے مذہبی جذبات مجروح ہوگئے؟ محمد زبیر کے اس ٹوئٹ کے بارے میں کسی بھی حلقہ سے کوئی شکایت نہیں کی گئی اور اب اچانک خاص طور پر بری نیت سے بنائے گئے چند سوشیل میڈیا اکاؤنٹس سے اسی پرانے ٹوئٹ سے متعلق شکایت درج کروائی اور دہلی پولیس نے فوری حرکت میں آکر کارروائی شروع کردی۔
نپور شرما نے دائیں بازو کے ایک نیوز پورٹل “Opindia” کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسے قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور اگر اسے یا اس کے خاندان کو گوئی گزند پہنچتی ہے تو اس کیلئے صرف اور صرف محمد زبیر ذمہ دار رہے گا۔ اگر نپور شرما کو قتل کی دھمکیاں دی جارہی تھیں تب دہلی پولیس کے سائبر کرائم سیل کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان لوگوں کا پتہ چلاتے جو نپور شرما کو قتل کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ اس کے بعد دہلی پولیس ان کے خلاف کارروائی کرسکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ نپور شرما کے الزام کے مطابق محمد زبیر پر الزامات عائد کئے گئے حالانکہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمد زبیر کو ذمہ دار کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے صرف وہ ٹوئٹ شیئر کیا تھا جو نپور شرما کے تبصرہ پر مبنی تھا جو نپور نے ٹی وی مباحثہ کے دوران کیا تھا اور اس تبصرہ کیلئے بعد میں اس نے معذرت خواہی کرلی تھی۔ اب حال ہی میں سپریم کورٹ نے کہا کہ نپور شرما کی وہ معذرت خواہی بادل نخواستہ تھی، اسے اپنے گستاخانہ ریمارکس کیلئے ساری قوم سے معذرت خواہی کرنی چاہئے۔ عدالت نے اُس ٹی وی چیانل اور اس کے مباحثہ پروگرام پر بھی سخت تنقید کی۔ ایسے میں اب کیا سپریم کورٹ کے ججس پر بھی قتل کی دھمکیوں کی حوصلہ افزائی کا الزام عائد کیا جائے گا اور سپریم کورٹ بینچ کے خلاف احتجاج منظم کئے جائیں گے؟ حیرت اس بات پر ہے کہ نپور شرما کے حامی میڈیا کے ایک آؤٹ لیٹ نے تو ججس کو بھی نہیں بخشا اور یہاں تک کہہ دیا کہ ججس نے اسلام پسندوں کی طرح ریمارکس کئے ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ نفرت پر مبنی تقریر دراصل حکمراں طبقہ کا ایک سیاسی ایجنڈہ ہے اور اسے کئی ایک میڈیا گھرانوں کی تائید حاصل ہے اور ان میڈیا ہاؤزیس نے مختلف برادریوں کے درمیان سماجی تعلقات کو خطرناک حد تک متاثر کیا۔ اس کیلئے بی جے پی کے اعلیٰ قائدین کی غیرذمہ دارانہ اور جان بوجھ کر اختیار کی گئی۔ خاموشی بھی ذمہ دار ہے۔ ان قائدین نے نفرت پر مبنی بیانات کی مذمت سے گریز کیا یا پھر امن و ہم آہنگی سے متعلق اپیلیں کرنے کی درخواستوں کو نظرانداز کردیا۔ اُدے پور میں جب ایک ٹیلر کنہیا لال کا بہیمانہ قتل ہوتا ہے تو بلالحاظ سیاسی وابستگی ہر طرف سے اس کی مذمت کی جاتی ہے اور قاتلوں کو راجستھان پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ اُدے پور میں نکالی گئی ریالی میں شامل عناصر نے اپنے ہاتھوں میں نپور شرما کی تصاویر لئے اس کی تائید میں نعرے بلند کئے۔ کیا کسی ایک بی جے پی لیڈر نے اس کی مذمت کی ہے۔ اس قسم کی مجہول صورتحال میں چیف منسٹر راجستھان اشوک گیہلوٹ نے وزیراعظم نریندر مودی سے کھلے عام درخواست کی کہ وہ امن و ہم آہنگی کی اپیل کریں لیکن ان کی اس درخواست پر وزیراعظم نے بالکل خاموشی اختیار کی اور ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ جب کبھی کسی بھی موقع پر سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے نفرت پر مبنی تقاریر کرتے ہیں یا بیانات جاری کرتے ہیں تو اعلیٰ سیاسی قائدین اور حکومت کے ذمہ دار بالکل خاموش رہتے ہیں۔ ان کی اس روش نے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کا ماحول پیدا کیا ہے، ایسے ماحول میں دہلی پولیس اور نپور شرما کے خلاف سپریم کورٹ کے ریمارکس نے اُمید کی ایک کرن پیدا کی ہے۔ اگر کہیں گستاخانہ ریمارکس کئے جاتے ہیں یا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کا ماحول تیار کرتے ہیں تو اس کیلئے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے عناصر کو بھی ذمہ دار قرار دینا ضروری ہے۔ بہرحال اب نپور شرما کے حامیوں نے چیف جسٹس سے اپیل کی کہ نپور شرما کے خلاف ریمارکس واپس لئے جائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ ہندوستان میں عدلیہ کی تاریخ کا مایوس کن دن ہوگا، ویسے بھی سچ کو چھپایا نہیں جاسکتا۔