سیاسی سفر کا اصل محرک اقتدار نہیں‘ سچ کی تلاش: راہول گاندھی
نئی دہلی: لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اور کانگریس رہنما راہول گاندھی نے ہفتہ کے روز اپنے سیاسی سفر کی گہرائیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے سفر کا اصل محرک اقتدار نہیں بلکہ سچ کی تلاش ہے۔ ایک ’پوڈکاسٹ طرز کی گفتگو‘ میں سینئر کانگریس قائد سندیپ دکشت سے بات کرتے ہوئے راہول نے کہا کہ انہیں اپنے پردادا، سابق وزیراعظم جواہر لال نہرو سے نہ صرف خاندانی وراثت ملی ہے بلکہ سچ کی تلاش، خطرات سے بے خوفی اور فکری جستجو کا جذبہ بھی حاصل ہوا ہے۔راہول گاندھی نے گفتگو کے دوران کہا کہ اس پوڈکاسٹ نما گفتگو میں میں نے بتایا کہ مجھے کیا چیز آگے بڑھاتی ہے۔ یہ اقتدار کی نہیں بلکہ سچ کی تلاش ہے اور یہ جذبہ مجھے میرے پردادا جواہر لال نہرو سے ملا ہے۔ وہ صرف ایک سیاستدان نہیں تھے، وہ ایک متلاشی، مفکر اور وہ شخص تھے جو خطرے میں مسکرا کر داخل ہوتے اور پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ واپس آتے۔ ان کی سب سے بڑی میراث سچ کی وہ غیر متزلزل تلاش ہے، جو ان کی زندگی اور جدوجہد کی بنیاد تھی۔ انہوں نے ہمیں سیاست نہیں سکھائی بلکہ خوف کا سامنا کرنا اور سچ کا ساتھ دینا سکھایا۔کانگریس ایم پی نے کہا کہ یہ جستجو سوال کرنے کی صلاحیت اور تجسس میں جڑے رہنا ان کی گھٹی میں شامل ہے۔ انہوں نے خاندانی قصے شیئر کرتے ہوئے کہا کہ میری دادی انہیں ’پاپا‘ کہہ کر بلاتی تھیں۔ وہ مجھے بتاتی تھیں کہ کیسے وہ اپنے محبوب پہاڑوں میں ایک بار برفانی تودے میں گرنے سے بال بال بچے تھے۔ ہمارے خاندان میں جانور ہمیشہ سے رہے، فطرت سے جڑا رہنا ہماری پہچان رہی۔ میری والدہ آج بھی باغ میں بیٹھ کر پرندوں کو دیکھتی ہیں۔ ہم مشاہدہ کرتے ہیں، ہم دنیا سے جڑے رہتے ہیں اور سب سے اہم، ہم اندر سے مضبوط رہتے ہیں۔راہول گاندھی نے مزید کہا کہ نہرو، گاندھی، امبیڈکر، پٹیل اور سبھاش چندر بوس جیسے عظیم رہنماؤں نے ہندوستانیوں کو یہ سکھایا کہ خوف کو دوست کیسے بنایا جائے۔ ان کے مطابق یہ رہنما ہمیں سوشلسٹ یا سیاسی سوچ نہیں سکھاتے بلکہ حوصلہ دینا ان کی اصل تعلیم تھی۔ گاندھی جی نے صرف سچ کے سہارے ایک سلطنت کا سامنا کیا۔ نہرو نے ہندوستانیوں کو ظلم کے خلاف کھڑے ہونے اور آزادی حاصل کرنے کا حوصلہ دیا۔ کوئی بھی بڑی انسانی کاوش، چاہے وہ سائنس ہو، فن ہو یا مزاحمت، ہمیشہ خوف کا سامنا کرنے سے شروع ہوتی ہے اور اگر آپ عدم تشدد کے پابند ہیں تو سچ ہی آپ کا واحد ہتھیار ہوتا ہے۔ ان رہنماؤں نے جو کچھ بھی جھیلا، سچ کی راہ سے نہیں ہٹے، اسی لیے وہ عظیم رہنما تھے۔راہول گاندھی نے آج کے ہندوستان میں سچائی کی قدر پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب سچ تکلیف دہ بن جائے تب اسے تھامنا اصل قیادت ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے میں بل گیٹس سے بات کر رہا ہوں یا چیترم موچی سے، میری جستجو ایک جیسی ہوتی ہے کیونکہ اصل قیادت کنٹرول پر نہیں، ہمدردی پر ہوتی ہے اور آج کے ہندوستان میں جہاں سچ تکلیف دہ ہو چکا ہے میں نے اپنا راستہ چن لیا ہے۔ میں سچ کے ساتھ کھڑا رہوں گا، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔راہول گاندھی کی یہ گفتگو صرف ایک خاندانی یادداشت یا ذاتی اظہار نہیں تھی بلکہ ایک سیاسی عزم بھی تھی۔ ان کی گفتگو سے یہ پیغام بھی واضح ہوا کہ سیاست میں اقتدار سے زیادہ اہم سچ اور ہمت ہیں اور ان کے لیے نہرو کی وراثت کا مطلب صرف خاندانی تعلق نہیں بلکہ فکری ورثہ ہے جو انہیں اصولوں پر چلنے کا حوصلہ دیتا ہے۔راہول کے مطابق ان کی سیاست کا مرکز طاقت نہیں بلکہ اقدار ہیں اور یہ اقدار وہ اپنے بزرگوں سے لے کر آج بھی نبھاتے ہیں۔ گفتگو کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ سچ کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔