نیا سفر ہے نئی منزلیں بلاتی ہیں

,

   

ملک ارجن کھرگے … کانگریس کی نئی امید
کرناٹک … حجاب کے بعد حلال سے نفرت

رشیدالدین
مسلسل دو انتخابات سے شکست کا سامنا کرنے والی کانگریس پارٹی نے نئی صف بندی کا فیصلہ کرتے ہوئے غیر گاندھی خاندان کے فرد کو پارٹی کی صدارت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ 137 سالہ تاریخ رکھنے والی کانگریس پارٹی میں یہ چھٹواں صدارتی الیکشن تھا جس میں ملک ارجن کھرگے بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے۔ ملک ارجن کھرگے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جگجیون رام کے بعد پارٹی کے دوسرے صدر ہیں جن کا تعلق دلت طبقہ سے ہے۔ گزشتہ 24 برسوں میں ملک ارجن کھرگے غیر گاندھی خاندان کے پہلے صدر ہیں۔ کانگریس میں G-23 گروپ کی جانب سے داخلی جمہوریت کے مطالبہ کے پس منظر میں ہائی کمان نے صدارتی الیکشن کا فیصلہ کیا جس میں دو امیدواروں نے حصہ لیا۔ ششی تھرور اگرچہ صدارتی امیدوار ضرور تھے لیکن انہیں گاندھی خاندان کی تائید حاصل نہیں تھی۔ ابتداء میں اشوک گہلوٹ امیدوار کے طور پر منظر عام پر آئے لیکن راجستھان میں چیف منسٹر کی تبدیلی کے مسئلہ پر ہائی ڈرامہ کے بعد وہ اس نادر موقع سے محروم ہوگئے۔ گاندھی خاندان نے اپنے انتہائی وفادار اور بااعتماد قائد ملک ارجن کھرگے کو میدان میں اتارا اور انہوں نے اپنے حریف ششی تھرور کو 6000 سے زائد ووٹوں کی اکثریت سے شکست دے دی ۔ ایسے وقت جبکہ ملک میں نوجوان ووٹرس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور نوجوان قیادت کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں، کانگریس پارٹی کی صدارت ایک ضعیف شخص کو سنبھالنی پڑی۔ کانگریس کی یہ مجبوری تھی کیونکہ صدارت پر وفادار کی ضرورت تھی۔ ملک ارجن کھرگے نہ صرف سینیاریٹی میں دوسروں سے آگے ہیں بلکہ تجربہ کار اور جہاندیدہ شخصیت کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ کانگریس کو پارٹی کی صدارت کیلئے نہرو۔گاندھی خاندان کے وفادار کی ضرورت تھی اور یہ اہلیت ملک ارجن کھرگے میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ کانگریس کے ووٹرس نے صحیح فیصلہ کرتے ہوئے تجربہ کار کو ایک دانشور پر ترجیح دی ۔ ششی تھرور دانشور ہیں جبکہ کھرگے عوام سے جڑے ہوئے قائد ہیں۔ ریکارڈ کے اعتبار سے ملک ارجن کھرگے کانگریس کے صدر رہیں گے لیکن سارا کام کاج اور فیصلے گاندھی خاندان کرے گا ۔ سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کی محنت کے نتیجہ میں پارٹی اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ کھرگے نے ذمہ داری تو سنبھال لی لیکن ان کے لئے سخت امتحان درپیش ہے۔ 2024 ء لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کے بہتر مظاہرہ کو یقینی بنانے سے قبل بعض ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کھرگے کے لئے ایسڈ ٹسٹ ثابت ہوں گے۔ یقیناً کھرگے کیلئے منزل کھٹن ہے لیکن گاندھی خاندان کی سرپرستی میں وہ کانگریس کے موقف کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ صدارتی الیکشن میں کھرگے کی کامیابی حقیقت میں سونیا اور راہول گاندھی کی کامیابی ہے۔ جنوبی ہند سے نیلم سنجیوا ریڈی ، برہمانند ریڈی اور پی وی نرسمہا راؤ کے بعد ملک ارجن کھرگے کانگریس کی صدارت پر فائز ہوئے۔ کانگریس کی 137 سالہ تاریخ میں سونیا گاندھی کو سب سے زیادہ مدت یعنی 20 سال تک صدارت کا اعزاز حاصل ہوا۔ کانگریس کے اب تک کے 98 صدور میں سید حسن امام ، حکیم اجمل خاں، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابولکلام آزاد اور مختار احمد انصاری شامل ہیں۔ یہ تمام آزادی سے قبل کانگریس کے صدر رہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سونیا گاندھی نے تنقیدوں سے بچنے کیلئے بہتر فیصلہ کیا ہے ۔ یہ محض اتفاق ہے کہ صدارتی الیکشن کے دونود امیدوار جنوب سے تھے۔ ملک میں کانگریس کے موقف کو مستحکم کرنے کیلئے راہول گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کا آغاز کیا ہے ۔ یاترا کے پہلے ہی دن سے کانگریس کی مقبولیت میں اضافہ کا رجحان ہے۔ ٹاملناڈو اور کیرالا کے بعد یاترا کرناٹک میں غیر معمولی کامیاب رہی اور ان دنوں راہول گاندھی آندھراپردیش میں مصروف ہیں۔ یاترا کے نتیجہ میں بنیادی سطح تک کانگریس کو پہنچنے میں مدد ملی ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کے کشمیر پہنچنے تک امید کی جارہی ہے کہ 140 سے زائد لوک سبھا حلقوں میں کانگریس کا موقف مستحکم ہوگا۔ یاترا کا یہ پہلا مرحلہ ہے اور راہول گاندھی دوسرے مرحلہ میں گجرات سے یاترا کا آغاز کرسکتے ہیں۔ نریندر مودی زیر قیادت مرکزی حکومت کو بھارت جوڑو یاترا سے سخت پریشانی ہے۔ بی جے پی قیادت کی نیند حرام ہوچکی ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں مودی حکومت نے مخالف عوام فیصلوں کا ریکارڈ قائم کیا ہے اور ایسے میں کانگریس عوام کے درمیان ایک متبادل کے طور پر ابھر رہی ہے۔ اگر سونیا گاندھی کامیاب ، راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کی مہم جاری رہی تو 2024 ء میں کانگریس پارٹی مرکز میں تشکیل حکومت میں اہم رول ادا کرسکتی ہے۔ کانگریس سے بی جے پی کے خوف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نریندر مودی نے ملک ارجن کھرگے کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔
ملک میں مخالف بی جے پی عوامی جذبات میں اضافہ کو محسوس کرتے ہوئے بی جے پی نے فرقہ وارانہ نوعیت کے مسائل کو ہوا دینے کا کام تیز کردیا ہے۔ بی جے پی کے پاس عوام کو بتانے کیلئے کوئی کارنامہ نہیں ہے ، لہذا اس نے نفرت کے ایجنڈہ کو اختیار کرلیا ہے۔ کرناٹک میں اسمبلی انتخابات سے عین قبل بی جے پی اور سنگھ پریوار نے کئی متنازعہ مسائل کے ذریعہ ہندو رائے دہندوں کو متحد کرنے کی کوشش کی ہے ۔ گاؤ کشی ، لو جہاد ، اذان ، مساجد اور شیر میسور ٹیپو سلطان کے خلاف نفرت کی مہم کے بعد ہندو تنظیموں نے حلال گوشت کو سیاسی موضوع بنانے کی کوشش کی ہے ۔ حجاب پر پابندی کا مسئلہ ابھی تھما نہیں تھا کہ بی جے پی نے اپنی تائیدی ہندو تنظیموں کو حلال گوشت کے خلاف مہم میں مصروف کردیا ۔ سپریم کورٹ میں حجاب سے متعلق دو ججس کے اختلافی فیصلہ کے بعد امید کی جارہی ہے کہ وسیع تر بنچ کا فیصلہ حجاب کے حق میں آئیں گا لہذا ہندوتوا طاقتوں نے ابھی سے حلال گوشت کے خلاف مہم چھیڑ دی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گوشت کا استعمال نہ کرنے والے افراد گوشت کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ کرناٹک میں حلال گوشت کے خلاف مہم تو محض ایک بہانہ ہے، اصل مقصد آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لئے ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کرنا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گوشت کی برآمدات میں مصروف کمپنیوں کے مالکین غیر مسلم ہے جو حلال کے نام پر کروڑہا روپئے کیا منافع حاصل کر رہے ہیں۔ بیرون ملک اور خاص طور پر عرب اور مسلم ممالک میں حلال کا ٹیگ لگاکر تجرات کی جارہی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ متنازعہ امور پر ز یادہ متوجہ ہوتے ہیں اسی لئے حلال گوشت کو نشانہ بناتے ہوئے بالواسطہ طور پر کاروبار کو مزید ترقی دینے کی کوشش ہے۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ فلموں کی ریلیز سے قبل انہیں متنازعہ بناکر عوام کی توجہ حاصل کی جاتی ہے۔ زیادہ تر وہی فلمیں کامیاب ہوتی ہیں جو ریلیز سے قبل کسی نہ کسی تنازعہ کا شکار رہتی ہے۔ملک میں بیف ہو یا میٹ اس کے بڑے کاروباری مسلمان نہیں ہے۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں قائم عصری مسالخ کے مالکین مسلمان نہیں ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے خود اعتراف کیا ہے کہ گوشت کی برآمدات میں ہندوستان نمبر ون ہے۔ ہندو تنظیموں کو اگر حلال سے اتنی نفرت ہے تو اپنی قریبی کمپنیوں اور اداروں کو پابند کریں کہ غذائی اشیاء پر حلال لکھنا بند کریں، تب پتہ چلے گا کہ کاروبار کیا ہوتا ہے۔ آج بھی گاؤں اور دیہاتوں میں روایت ہے کہ غیر مسلم گھرانوں میں مسلمان کے ذریعہ جانور کو ذبح کرایا جاتا ہے۔ سائنسی اعتبار سے ذبیحہ کا گوشت نقصاندہ نہیں ہوتا۔ اسی دوران وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے دورہ گجرات کے پروگرام تیز ہوچکے ہیں۔ وقفہ وقفہ سے دونوں قائدین گجرات کا دورہ کرتے ہوئے اروند کجریوال کی مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گجرات میں غیر متوقع طور پر عام آدمی پارٹی کی مقبولیت نے بی جے پی کیلئے خطرہ پیدا کردیا ہے ۔ گجرات میں بی جے پی کا کوئی چہرہ ایسا نہیں جو پارٹی کو دوبارہ کامیابی دلاسکے، لہذا مودی اور امیت شاہ نے ابھی سے انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے ۔ گجرات کا الیکشن دونوں کیلئے وقار کا مسئلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کے نزدیک گجرات ہی ہندوستان ہوچکا ہے۔ تمام اسکیمات اور فنڈس کو گجرات منتقل کیا جارہا ہے، حالانکہ ملک میں بی جے پی زیر اقتدار دوسری ریاستیں بھی موجود ہیں۔ کانگریس کے نئے صدر کیلئے یہ شعر ایک پیام ہے ؎
نیا سفر ہے نئی منزلیں بلاتی ہیں
مسافرو روش کارواں بدل ڈالو