نیا وائرس ۔ شاہین باغ احتجاج ۔ این پی آر

   

عرفان جابری
’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ یہ مشہور قول ہے۔ زندگی میں شاذونادر ایسا مرحلہ آتا ہے کہ اس قول کو اسلامی تعلیمات کی تائید حاصل نہیں ہوتی۔ میں اس لئے موجودہ طور پر چین سے شروع کرتے ہوئے دنیا کے زائد از 70 ممالک متاثر کرنے والے مہلک کوروناوائرس
(Coronavirus)
سے تحریر کی شروعات کررہا ہوں۔ صحت و زندگی کو درست رکھنا بلاشبہ مقدم ہے۔ شہریت (ترمیمی) قانون یا
CAA
کے خلاف ایجی ٹیشن چلتا رہے گا۔ پھر سی اے اے سے قبل یکم اپریل 2020ء سے ہندوستانی مسلمانوں (امیروں کو چھوڑ کر) اور عام طبقات کے غیرمسلموں کیلئے ایک اور نئے ’’وائرس‘‘ کی شکل میں مصیبت کی بات کرتے ہیں، جسے انگریزی مخفف NPR سے ظاہر کیا جارہا ہے۔ آپ یقین مانیں، کوروناوائرس یا
COVID-19
انسان کو بلا لحاظ نسل و مذہب اکثر موقعوں پر دواخانوں تک پہنچا کر مارتا ہے؛ مگر یہ ’موذی وائرس‘ این پی آر صرف عام ہندوستانی مسلمانوں اور غیرمسلموں کو ’’بے مملکت‘‘ کرتے ہوئے ڈیٹنشن سنٹرز میں یا کہیں اور مارے گا!
وائرس (virus) نہایت چھوٹی جسامت (قطر کے اعتبار سے دیکھیں تو 20 تا 300 نینو میٹر) کا حامل، بدن کیلئے بے فیض و سست، وبائی اثر والا مادہ ہوتا ہے۔ وہ جس بدن میں گھستا ہے وہاں کے خلیوں کے اندرون مشابہ اشکال میں بڑھتا جاتا ہے۔ کوروناوائرس ایسے وائرس کا گروپ ہے جو دودھ پلانے والے جانوروں اور پرندوں میں بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ انسانوں میں کورونا وائرس کے سبب تنفسی نالی کا انفکشن ہوتا ہے جو مختلف نوعیت کے اثرات لاتا ہے جیسے سردی۔ لیکن اس انفکشن کے انوکھے اقسام جیسے
SARS، MERS،
اور
COVID-19
(جاریہ وبائی مرض) مہلک ہوسکتے ہیں۔
وبائی مرض
coronavirus
کا نام لاطینی لفظ
corona
سے اخذ کیا گیا، جس کے معنی ’’کراؤن‘‘ (تاج) کے ہوتے ہیں۔ یہ نام اس وائرس کی ظاہری شکل کو دیکھ کر رکھا گیا ہے۔ کوروناوائرس پہلی مرتبہ 1960ء کے دہے میں دریافت کئے گئے۔ ابتدائی اقسام میں چکن کو متاثر کرنے والا وبائی
bronchitis virus
شامل ہے۔ کسی خلیہ میں داخلے کے بعد وائرس کا ذرہ بے خول ہوکر اس کا
genome
(کروموزوم کا مکمل جوڑ) خلیہ کے
cytoplasm
(مایہ حیات) میں گھس جاتا ہے۔ اس کے ساتھ تمام تر وبائی مسائل شروع ہوتے ہیں۔ انسانوں میں اس وائرس کی منتقلی بنیادی طور پر قریبی ربط کے ذریعے ہوتی ہے۔ تنفسی نالی سے چھینک اور کھانسی کے سبب نکلنے والے ہلکے قطرات بھی مضر ہوسکتے ہیں۔
ہم گلوبل ولیج یا عالمی گاؤں میں جی رہے ہیں۔ اس کے جہاں بے شمار فائدے ہیں، وہیں بہت نقصانات بھی ہیں۔ چین کے مشہور شہر ’ووہان‘
(Wuhan)
سے پھیلا موجودہ کوروناوائرس بمشکل تین ماہ میں ایک تہائی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ پڑوسی کی حیثیت سے بھارت جیسے بڑے دیش کا بچ کر رہنا ممکن نہیں تھا۔ میں سمجھتا ہوں ہمارا ملک دیر سے متاثر ہوا ہے۔ تاہم، اب انڈیا بھی کورونا وائرس
(COVID-19)
سے متاثر ممالک میں سے ہے۔ خوش قسمتی سے تادم تحریر کوئی بھارتی اس وائرس کا شکار نہیں ہوا ہے۔ چین میں لگ بھگ 3,000 کے بشمول دنیا بھر میں 3,500 اموات ہوچکی ہیں۔
یہ تو سبھی قارئین کرام جانتے ہیں کہ انڈیا ترقی یافتہ ملک نہیں۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے پانچ ’ویٹو پاور‘ کے حامل ممالک امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ کے بشمول دیگر ترقی یافتہ ملکوں نے کورونا وائرس کے آگے گھٹنے ٹیک رکھے ہیں۔ مسجد الحرام، مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی ؐ، مدینہ منورہ کو سعودی حکام کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے بھرپور جتن کررہے ہیں۔ وہاں غیرمعمولی صاف صفائی کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں، یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ساری دنیا والوں کیلئے مثال ہونا چاہئے۔ موجودہ طور پر کورونا وائرس ہو کہ آنے والے وقت کا کوئی اور وائرس… ہر صورت میں تدارک کیلئے صاف صفائی بے حد ضروری ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ’’پاکی آدھا ایمان ہے‘‘۔
اللہ رب العزت نے ہر چوبیس گھنٹے میں پانچ مرتبہ فرض نمازوں کا حکم دیا ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ ’’نماز برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے‘‘۔ پس مسلمانوں کو چاہئے کہ کم از کم پانچ فرض نمازوں کا خود کو عادی بنالیں۔ اس کیلئے پانچ مرتبہ تازہ وضو کرلیا جائے تو بہت اچھا ہے۔ خورد و نوش کی اچھی عادتیں اختیار کریں۔ گندگی و حرامکاری سے کوسوں دور رہیں۔ شاید غیرمسلم کا سوال ہو کہ ’’میں کیسے نماز پڑھ سکتا ہوں، میں تو مسلمان نہیں؟‘‘ یہاں زیربحث مضمون میں بنیادی نکتہ صاف صفائی، بدن کی تندرستی اور صاف ستھری زندگی بسر کرنا ہے۔ اہل ایمان ہونا، یا نہ ہونا نہیں ہے۔ اس لئے غیرمسلم ابنائے وطن خود فیصلہ کرلیں کہ اچھی باتوں میں سے انھیں کیا کیا چاہئیں؟
شاہین باغ کی ثابت قدمی کو سلام اب ہے چال بدلنے کا وقت!
شہریت (ترمیمی) قانون یا
CAA
کے خلاف دہلی کے شاہین باغ کے احتجاجیوں نے 15 ڈسمبر 2019ء سے جس طرح ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی جتنی تعریف کریں کم ہے۔ اس عرصے میں دہلی کا شمال مشرقی حصہ 23 تا 25 فبروری دہلی پولیس، سیاسی قیادت، نظم و نسق کی ’مجرمانہ غفلت‘ کے درمیان بدترین تشدد سے گزرا۔ اس کے باوجود باہمت، بلند حوصلہ اور مثالی احتجاجیوں نے اینٹی سی اے اے ایجی ٹیشن کو جاری رکھا۔ ڈسمبر میں جب سی اے اے منظور ہوا، تب چند روز کے وقفے سے مودی۔ شاہ حکومت نے نیشنل پاپولیشن رجسٹر
(NPR)
کو معمول کے دس سالہ سنسیس (مردم شماری) 2021ء کے پہلے مرحلے کے ساتھ یکم؍ اپریل تا 30 ستمبر 2020ء منعقد کرانے کا اعلان کرتے ہوئے فنڈز جاری کردیئے تھے۔ تب چونکہ یکم؍ اپریل دور کا معاملہ تھا، اس لئے فوری طور پر سی اے اے کی مخالفت میں احتجاج شروع کیا گیا۔ اوپر والے کا شکر ہے کہ ابھی صرف زیادہ تر امیر مسلم افراد (سیاسی؍ غیرسیاسی) کا ضمیر مرا ہے، میرے جیسے متوسط اور غریب مسلمان زندگی کے ہر معاملے کو مادی مفاد کے ساتھ نہیں دیکھتے ہیں، الحمد للہ!
میں سمجھتا ہوں، کسی بھی نوعیت کی جدوجہد میں اُتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ فی الحال تین ماہ کے ایجی ٹیشن کے باوجود ’بے حس‘ مودی۔ شاہ حکومت غفلت کے غلاف میں لپٹی پڑی ہے۔ اسے خود کا اچھا بُرا نہیں معلوم، 80 کروڑ سے زیادہ ہندوؤں کی بہتر زندگی کی فکر نہیں تو وہ 20 کروڑ مسلمانوں کا کیا بھلا کرے گی؟ چنانچہ اب سے 31 مارچ تک جو کچھ وقت بچا ہے، اسے پوری انڈین مسلم کمیونٹی
NPR
کے عمل کو کم از کم ملتوی کرانے کیلئے لگائے تو بڑا کارنامہ ہوگا۔ حکومت جھانسہ دینے کی کوشش کررہی ہے کہ این پی آر تو 2010ء میں ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت میں ہوچکا، جسے 2015ء میں آدھار کا بائیومیٹرک ڈیٹا شامل کرکے اَپ ڈیٹ کردیا گیا۔ اب این پی آر سے کسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں!
مودی۔ شاہ حکومت کے منصوبے ’خطرناک‘ ہیں۔ آسام میں
NRC
(نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) 2019ء سے وہ بے نقاب ہوچکے ہیں۔ اب اگر ہم حکومت کے جھانسہ میں آگئے اور این پی آر کو بے ضرر سمجھ کر قبول کرلیا تو آگے ہم خودبخود این آر سی کے جال میں پھنس جائیں گے۔ اس کے بعد ہمارا ووٹ ڈالنے کا حق سلب کیا جائے گا۔ ہم بے وطن بلکہ بے مملکت ہوجائیں گے۔ اس لئے احمقانہ پن کا شکار ہونے کے بجائے آخر تک حق پر قائم رہنا چاہئے۔ یکم؍ اپریل اور 30 ستمبر 2020ء کے درمیان جب سرکاری لوگ ہمارے گھروں کو آئیں تو صرف اور صرف
Census
کا فارم بھریں۔ این پی آر کو شائستگی سے منع کردیں۔
اس دوران اپنے اپنے محلے، ٹاؤن، سٹی میں منتخب عوامی نمائندوں (نام نہاد قائدین) کو جھنجھوڑتے رہیں، اُن کے سر پر سوار ہوجائیںکہ وہ این پی آر اور مودی۔ شاہ حکومت کی ظالمانہ سرگرمیوں کے خلاف اپنے منہ کھولیں، ورنہ اُن کیلئے مستقبل قریب میں عوام کے سامنے منہ کھولنا مشکل ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں ہر محلہ اور ہر علاقہ سے ضروری جانکاری رکھنے والے مرد و خواتین کے گروپ بنائے جائیں جو ممکنہ حد تک گھر گھر پہنچ کر مسلمانوں اور سکیولر غیرمسلموں کی ذہن سازی کریں۔
[email protected]