نیتاجی سبھاش چندر بوس فرقہ پرستوں کے کٹر مخالف

   

رام پنیانی

جاریہ سال نیتاجی سبھاش چندر بوس کی سالگرہ تقاریب بڑے پیمانے پر منائی گئی اور اس ضمن میں متعدد پروگرامس (23 جنوری) کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ راشٹراپتی بھون میں صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند نے نیتاجی کے پورٹریٹ کی نقاب کشائی انجام دی۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی سالگرہ تقریب کو یوم شجاعت کے طور پر منایا جائے گا۔ وزیر ریلوے نے ہوڑہ ۔ کالکامیل کو نیتاجی اکسپریس کا نام دینے کا بھی اعلان کیا۔ اس طرح اب یہ ٹرین نیتاجی اکسپریس کے نام سے جانی جائے گی۔
دوسری طرف مرکزی حکومت کے اعلانات کے برعکس چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے نیتاجی کی سالگرہ تقریب کو یوم قومی ہیرو کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی اینڈ کمپنی کی سوشل میڈیا ونگ کے ساتھ ساتھ بی جے پی قائدین زبانی پروپگنڈہ کے ذریعہ یہ جھوٹ پھیلانے میں مصروف ہیں کہ کانگریس نے نیتاجی سبھاش چندربوس کو بالکلیہ طور پر نظرانداز کردیا، انھیں کوئی احترام وقار نہیں دیا۔ بی جے پی یہ بھی پروپگنڈہ کررہی ہے کہ نیتاجی نے دراصل ہندوتوا کی تائید و حمایت کی تھی۔
کولکتہ میں 23 جنوری کو سبھاش چندر بوس کی سالگرہ تقریب منائی گئی۔ اس تقریب میں وزیراعظم نریندر مودی نے بھی بطور خاص شرکت کی۔ چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی جب خطاب کے لئے کھڑی ہوئیں تب بی جے پی کے حامیوں نے جئے شری رام کے نعرے لگائے، جواب میں ممتا بنرجی نے یہ کہتے ہوئے نہ صرف تقریر نہیں کی کہ یہ ان کی توہین ہے بلکہ اجلاس کو چھوڑ کر روانہ بھی ہوگئیں۔ ممتا بنرجی کا کہنا تھا کہ نیتاجی سبھاش چندر بوس کو جو نعرہ سب سے زیادہ عزیز تھا وہ ’’جئے ہند‘‘ کا نعرہ تھا۔

یہ سب کچھ مغربی بنگال کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر اور اس کے تناظر میں ہورہا ہے جہاں بی جے پی اسمبلی انتخابات ہر حال میں جیتنے کی خواہاں ہے۔ اس لئے وہ عوام کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ تمام اہم مجاہدین آزادی اس کے نظریات کے حامل تھے اور ہندوتوا کی تائید و حمایت کرنے والے تھے چنانچہ سبھاش چندر بوس کو بھی بی جے پی ہندوتوا کی ایک اہم شخصیت قرار دینے میں مصروف ہے۔ وہ جانتی ہے کہ نیتاجی ایک قدآور قومی لیڈر تھے اور مغربی بنگال میں انھیں بہت مانا جاتا ہے۔ وہاں ان کے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔اگر دیکھا جائے تو نیتاجی سوشلزم، جمہوریت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حامی تھے اور موجودہ حکمراں جماعت ایک ہندو ملک کے لئے ہے اور وہ تخریبی سیاست پر عمل پیرا ہے۔ اپنی سرگرمیوں و حرکتوں اور اقدامات کے ذریعہ وہ جمہوریت کو خطرہ میں ڈال رہی ہے۔
ساورکر کے برعکس نیتاجی سبھاش چندر بوس نے ’’آزاد ہند فوج‘‘ (انڈین نیشنل آرمی INA) سنگاپور میں قائم کی جس کا مقصد انگریز فوج کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس کے باوجود وہ ہمیشہ انڈین نیشنل کانگریس، مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی ستائش کرتے رہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سبھاش چندر بوس نے مہاتما گاندھی کو جو مکتوب لکھے ان میں انھیں (گاندھی جی کو) اشتر پتا (بابائے قوم) جیسے لفظ سے مخاطب کیا۔ انھوں نے انڈین نیشنل آرمی قائم کرتے ہوئے گاندھی جی کی دعائیں طلب کی اور انڈین نیشنل آرمی کے دو بریگیڈس کو گاندھی اور نہرو سے موسوم کیا۔اس کے برعکس ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس نے پوری طرح ریاست کے بہبودی پروگراموں اور نظریہ سوشلزم کے خلاف تھے۔ سبھاش چندر بوس ایک کٹر سوشلسٹ تھے۔ کانگریس میں نیتاجی، نہرو سوشلسٹوں کے ساتھ تھے جو قومی تحریک میں سوشلسٹ نظریات کو مستحکم کرنے میں مصروف تھے۔ ملک کے منصوبہ بند انداز میں ترقی کے لئے نیتاجی منصوبہ بندی کمیشن کی پورے زور و شور سے وکالت کررہے تھے۔
کانگریس نے بھی انڈین نیشنل آرمی کو ہمیشہ مثبت روش میں دیکھا اور دوسری جنگ عظیم کے ختم پر جب INA کے سپاہیوں اور عہدیداروں پر عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے بھولا بھائی دیسائی جیسے وکیلوں اور پنڈت جواہر لعل نہرو نے ان کے مقدمات لڑے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے انڈین نیشنل آرمی کے بہادر سپاہیوں کے مقدمات لڑنے کے لئے وکیلوں کا گاون زیب تن کیا۔

ہندو مہا سبھا آر ایس ایس کا اصل مقصد ہندو راشٹرا (ہندو ملک) تھا اور سبھاش چندر بوس اس کے سخت خلاف تھے۔ انھوں نے فرقہ واریت پر مبنی سیاست کی شدت سے مخالفت کی۔ سبھاش چندر بوس، مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا کی مذہبی خطوط پر کی جانے والی سیاست کے کٹر مخالف تھے۔ جس وقت وہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر تھے تب فرقہ واریت کی سیاست میں یقین رکھنے والوں کی دوہری رکنیت ختم کردی گئی۔ انھوں نے ایسے قواعد بنائے جس کے تحت یہ فرقہ پرست کانگریس کی منتخبہ کمیٹیوں میں شامل نہیں رہ سکے۔حقیقت یہ ہے کہ برلن سے نشر کی گئی اپنی ایک تقریر میں نیتاجی نے انگریزوں کی تائید کرنے والے فرقہ پرستوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فرقہ پرست تنظیموں کی سیاست کسانوں اور محنت کشوں کے مفادات کے بالکل خلاف ہے۔ انھوں نے ہندو مہا سبھا بنگال یونٹ میں شیام پرساد مکرجی کی شمولیت کی شدت سے مخالفت کی تھی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں قوم پرستی اور ہندو مسلم اتحاد کی نوعیت سے متعلق نیتاجی کے نظریات کو مؤثر طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ انھوں نے ایک مقام پر کچھ یوں لکھا: ’’محمڈنس کی آمد کے ساتھ ہی بتدریج ایک نئی ترکیب بننے لگی۔ اگرچہ وہ لوگ ہندوؤں کا مذہب قبول نہیں کرتے لیکن ان لوگوں نے ہندوستان کو اپنا گھر بنایا اور عوام کی مشترکہ سماجی زندگی ان کی خوشیوں اور غم کو بانٹا‘‘۔ اگر دیکھا جائے تو وقفہ وقفہ سے نام نہاد ہندو قوم پرست سوامی وویکانندا، سردار پٹیل جیسے قائدین کو اپنے نظریات کا حامی بتاتے ہوئے خود کو جائز قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں اور بی جے پی جیسی جماعت کانگریس، گاندھی یا نہرو سے اُصولوں پر اختلاف رکھنے والے قومی قائدین پر اپنا لیبل چسپاں کرنے کی کوشش کررہی ہے۔نیتاجی ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار اور فرقہ پرستی کے کٹر مخالف تھے۔ انھوں نے گاندھی جی کو بابائے قوم کہا تھا اور ایک ہندو قوم پرست نے گاندھی جی کا قتل کیا تھا۔