رام پنیانی
گزشتہ ماہ بی جے پی ۔ آر ایس ایس نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کے اعزاز میں مختلف پروگراموں کا اہتمام کیا۔ ایک پروگرام میں جھڑپ ہوگئی جو کیندراپاڑہ، اوڈیشہ میں کرفیو کا موجب بنی۔ بی جے پی۔ آر ایس ایس کے زیراہتمام مختلف میٹنگس میں بوس اور ساورکر اور بوس اور آر ایس ایس کے درمیان تقابل کی کوشش کی گئی۔ یہ بتانے کیلئے پروپگنڈہ جاری ہے کہ ساورکر کا مشورہ ہی تھا کہ بوس نے عالمی جنگ عظیم دوم کی اتحادی طاقتوں (جرمنی اور جاپان) کے ساتھ اتحاد کیا۔ آر ایس ایس اور آئی این اے (آزاد ہند فوج) کے درمیان تقابل کیا جارہا ہے۔ اب پوری کوششیں یہی ظاہر کرنے کیلئے جاری ہیں کہ بوس کی حب الوطنی ساورکر۔ آر ایس ایس کی قوم پرستی سے قریب تر ہے۔ آر ایس ایس پریوار نیتاجی سبھاش چندر بوس کو ایسی شخصیت کے طور پر سراہنے کوشاں ہے جنھوں نے انگریزوں کے خلاف آزادی کیلئے جدوجہد کو مشروعیت عطا کی۔ اس پریوار کو آخر کب اس عظیم مجاہد آزادی کی خدمات کا پتہ چلا؟ یا پھر سوال اٹھتا ہے کہ آیا آر ایس ایس پریوار نے کبھی برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کرنی چاہی؟ یہ گزشتہ چند برسوں کی تبدیلی ہے کہ قومی سپوتوں کو تسلیم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
سردار پٹیل کے معاملے میں پروپگنڈہ یوں ہے کہ اگر وہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم ہوتے تو ہمیں مسئلہ کشمیر درپیش نہ ہوتا، ہم زیادہ ترقی کئے ہوتے۔ اس معاملے میں سچائی یہ ہے کہ پٹیل اور نہرو ہندوستانی کابینہ کے دو مضبوط ستون تھے جنھوں نے ہندوستانی جمہوریہ کیلئے ٹھوس بنیادیں قائم کئے۔ اُن کے درمیان اختلافات معمولی نوعیت کے رہے اور پٹیل ہی نہرو کیلئے سب سے زیادہ بھروسہ مند کابینی رفیق تھے۔
جہاں تک سبھاش چندر بوس کا معاملہ ہے، ہم جانتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے بڑے مجاہدین آزادی میں سے ہیں۔ وہ اپنی زیادہ تر زندگی انڈین نیشنل کانگریس کا حصہ رہے اور 1939ء کے تریپورہ سیشن میں اس کے صدر بھی رہے۔ اندرون کانگریس وہ سوشلسٹ گروپ کا حصہ تھے۔ وہ اور نہرو سوشلزم، سکیولرازم و دیگر مسائل پر یکساں خیالات رکھتے تھے۔ وہ حصولِ آزادی کے طریقۂ کار کے مسئلہ پر کانگریس سے علحدہ ہوئے۔ جہاں گاندھی جی زیرقیادت کانگریس نے عدم تشدد کی راہ اختیار کرنی چاہی، وہیں نیتاجی کو اس مسئلہ پر اختلاف ہوا۔ ہندوستان کی آزادی کیلئے کانگریس نے ’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک شروع کی تاکہ مخالف سامراج دباؤ پیدا کیا جاسکے اور اس سے جدوجہد آزادی کو تقویت ملی۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران نیتاجی کا منصوبہ ہوا کہ اتحادی طاقتوں (جاپان اور جرمنی) کے ساتھ اشتراک کے ذریعے انگریزوں کے خلاف مسلح فوجی کارروائی چھیڑدی جائے، اس طرح انھوں نے آئی این اے تشکیل دی۔ انھوں نے 21 اکٹوبر 1943ء کو سنگاپور میں آزاد ہند کی صوبائی حکومت تشکیل بھی دی۔ وہ کرشماتی قائد رہے جو کٹر مخالف سامراج تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس عدم تشدد کی راہ پر قائم رہی۔ اس نے ہندوستان چھوڑو تحریک شروع کی جو مہاتما گاندھی کی قیادت میں ہوئی۔ بوس کو انگریزوں کے خلاف لڑائی کے معاملے میں بعض اختلافات ہوئے۔ انھوں نے فاشسٹ جرمنی اور اس کے حلیف جاپان کے ساتھ اتحاد کیا۔
اُس مرحلے پر آر ایس ایس اور ہندو قوم پرست کیا کررہے تھے؟ ہندوتوا اور ہندو قوم کے نظریہ کے موجد و نظریہ ساز ساورکر نے اُس وقت یہی پرچار کیا کہ ہندو قوم پرستوں کو انگریزوں کی جاپان اور جرمنی کے خلاف اُن کی جنگی کوششوں میں مدد کرنا چاہئے۔ آر ایس ایس سرسنگھ چالک ایم ایس گولوالکر نے اپنی تمام شاکھاؤں کو ہدایت دی کہ ایسا کچھ نہ کریں جو انگریزوں کو پریشانی میں ڈالے اور مخالف برطانوی سامراج جدوجہد سے الگ تھلگ رہیں۔ چنانچہ جہاں کانگریس ہندوستان چھوڑو تحریک کے ذریعے انگریزوں پر دباؤ ڈال رہی تھی، نیتاجی آئی این اے کے ذریعے انگریزوں سے لڑرہے تھے، وہیں ساورکر انگریزوں کی سرگرمی سے مدد کرتے ہوئے مسلح افواج میں بھرتی میں ان سے تعاون کررہے تھے۔ ایک طرح سے آر ایس ایس نے ایسا کچھ نہیں کیا جو برطانوی حکمرانی کے خلاف ہو۔ یعنی ہندو قوم پرستوں نے ایک طرف انگریزوں کی اُن کی جنگی کوششوں میں تائید و حمایت کی (ساورکر) یا جدوجہد آزادی سے الگ تھلگ رہے (گولوالکر۔ آر ایس ایس)، دوسری طرف اب وہ نیتاجی کی مخالف انگریز آئی این اے کی مدح سرائی کررہے ہیں! جہاں نیتاجی سوشلسٹ (نظریہ اشتراکیت کا پیرو) تھے جو نہرو کے افکار سے قریب تر ہے، وہیں گولوالکر نے ایک موقع پر تحریر کیا کہ کمیونسٹ افراد ہندو قوم کیلئے داخلی خطرہ ہیں۔ بی جے پی نے اپنی تشکیل کے وقت ’گاندھیائی سوشلزم‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا، جو محض انتخابی جملہ (سیاسی شعبدہ بازی) تھا۔
نیتاجی اور ہندو قوم پرستوں۔ آر ایس ایس کے آئیڈیالوجی اور عملی اقدامات میں کوسوں کا فاصلہ ہے۔ پھر کیوں وہ آج اُن کو بڑھاوا دے رہے ہیں؟ کیوں وہ مشابہتوں کو ظاہر کرنے کی کوششیں کررہے ہیں جو ہیں ہی نہیں؟ حقیقت میں چونکہ آر ایس ایس نے تحریک آزادی میں حصہ نہیں لیا، اس لئے اُن کے پاس کوئی نمایاں قومی شخصیت نہیں ہے۔ آر ایس ایس کے اٹل بہاری واجپائی اُس دور میں نوجوان کالج اسٹوڈنٹ تھے جن کو ہندوستان چھوڑو تحریک کے دوران غلطی سے جیل میں ڈال دیا گیا؛ انھوں نے معذرت خواہی کرلی اور رہائی پائی۔ ساورکر چونکہ انڈمان جیل میں قید کئے جانے سے قبل مخالف انگریز تھے، اس لئے انھیں اُن کے نام کے ساتھ ’ویر‘ (بہادر) کا سابقہ لگاتے ہوئے بہادر جنگجو کے طور پر اُبھارا گیا۔ انھوں نے بھی انگریزوں سے معذرت چاہی اور جیل سے رہائی پائی۔
قوم پرستی کا دعویٰ کرنے والے زیادہ تر فرقے، مسلم لیگ۔ ہندو مہاسبھا۔ آر ایس ایس نے کبھی مخالف انگریز موقف اختیار نہیں کیا۔ یہ ہندوستانی قوم پرستی کیلئے واضح نکتہ ہونا چاہئے۔ کانگریس اور بوس ازحد مخالف انگریز رہے، اس لئے اُن کی قوم پرستی کی ایک طرح سے مشابہہ شدت رہی حالانکہ بعض اختلافات رہے۔ جب بوس کی آزاد ہند فوج پر برطانوی سامراج کے خلاف اُن کی مخالف جنگ حرکتوں کی پاداش میں انگریز مقدمہ چلا رہے تھے، نہرو جیسے قائدین نے آئی این اے کی مدافعت کی، انگریزوں کی جانب سے ٹرائل کے دوران بوس اور اُن کے رفقاء کے دفاع میں ہندو قوم پرست کیمپ سے کوئی آگے نہیں آیا۔ اب محض انتخابی وجوہات کی بناء آر ایس ایس۔ بی جے پی کو پٹیل اور بوس جیسی شخصیتوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت پڑرہی ہے۔ وہ سرگرمی سے بعض نکات کو اُبھارنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ پٹیل اور بوس جیسے لجنڈ قائدین کے نام پر آگے بڑھ سکیں۔ ابھی تک سردار پٹیل کو اُبھارا جاتا رہا اور اب نیتاجی کی باری ہے! اُن کی اصل مخالفت ہندوستانی قوم پرستی ہے۔ وہ جواہر لعل نہرو کی قدر گھٹاتے ہیں جنھوں نے سکیولرازم اور جمہوریت کے دفاع میں بہت ہی ٹھوس موقف اختیار کیا۔
چونکہ آر ایس ایس نہرو وراثت کی مخالفت کرنا چاہتا ہے، انتخابی محاذ پر کانگریس کے خلاف ہے، اس لئے آر ایس ایس اپنے مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف نامور شخصیتوں کو اُبھارتا رہے گا۔ اگرچہ ان شخصیتوں کے نہرو کے ساتھ کچھ اختلافات رہے، لیکن جہاں تک سکیولر جمہوری قدروں کا معاملہ ہے وہ ہمیشہ یکساں رائے رکھتے تھے۔ پٹیل اور نیتاجی کی یہ مدح سرائی مزید اقتدار حاصل کرنے کیلئے محض انتخابی شعبدہ بازی ہے۔
ram.puniyani@gmail.com