تل ابیب 15جولائی (ایجنسیز) اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ سیاسی دراڑ اس وقت گہری ہوئی جب مذہبی طلبہ کو لازمی فوجی سروس سے مستثنیٰ رکھنے کے متنازع بل پر شدید اختلافات سامنے آئے۔ الٹرا آرتھوڈوکس جماعتیں کئی برسوں سے اس بل کی منظوری کی منتظر تھیں، مگر حکومت کے اندر اختلاف رائے شدت اختیار کر گیا۔پارلیمانی ذرائع کے مطابق، UTJ کا ایک رکن پہلے ہی مستعفی ہو چکا تھا اور اب جماعت کے باقی 6 ارکان نے بھی نیتن یاہو سے اپنی حمایت واپس لے لی ہے۔ اس پیشرفت کے بعد 120 نشستوں پر مشتمل کنیسٹ میں وزیراعظم کو محض ایک ووٹ کی نازک اکثریت حاصل رہ گئی ہے۔مبصرین کے مطابق اب تمام نگاہیں شاس پارٹی پر مرکوز ہیں جو 11 نشستوں کی حامل ہے۔ اگر شاس نے بھی نیتن یاہو کا ساتھ چھوڑا تو ان کی حکومت کا خاتمہ یقینی ہو سکتا ہے۔ یہ بحران ایسے وقت میں ابھرا ہے جب اسرائیل داخلی سیاسی انتشار، بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ اور ایران و غزہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی جیسے سنگین چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔