نیتن یاہو کی مداخلت سے غزہ معاہدہ کا مسودہ تبدیل

   

پاکستان کا موقف غیر یقینی، اگر آٹھ مسلم ممالک کی مشترکہ ترامیم شامل نہ کئی گئیں تو امریکہ کا غزہ امن منصوبہ ناقابل قبول: اسحق ڈار

اسلام آباد، یکم اکتوبر (یو این آئی) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ پیش کیے جانے کے ایک روز بعد ہی اس کے مسودے پر اختلافات کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ بات منگل کو وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار کی پریس کانفرنس سے بھی ظاہر ہوئی، جہاں انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر 8 مسلم ممالک کی طرف سے مشترکہ طور پر پیش کی گئی ترامیم شامل نہ کی گئیں تو امریکہ کا غزہ امن منصوبہ قبول نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دستاویز امریکہ نے جاری کی ہے ، گویا پاکستان کے پالیسی ساز خود کو اس منصوبے سے الگ ظاہر کررہے ہیں، حالانکہ اس سے پہلے ٹرمپ دعویٰ کرچکے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر دونوں اس کی 100 فیصد حمایت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا مسودہ نہیں، جو ہم نے انہیں بھیجا تھا، کچھ اہم نکات ہیں جنہیں ہم شامل کرنا چاہتے ہیں، اگر وہ شامل نہ ہوئے تو انہیں شامل کیا جائے گا’۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے اعلان کو ‘ان کی طرف سے اعلان’ سمجھا جائے ۔ اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان 8 مسلم ممالک کی جانب سے دیے گئے مشترکہ اعلامیے پر قائم ہے ، اگر کوئی فرق ہوا، تو ہم اسی پر چلیں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے میں فلسطینیوں کی ایک آزاد ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کرنے کی بات کی گئی ہے ، جس کی نگرانی ایک بین الاقوامی ادارہ کرے گا، جو زیادہ تر فلسطینیوں پر مشتمل ہوگا۔ بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کا حصہ بننے کے امکان کے بارے میں وہ محتاط رہے ۔ انہوں نے کہا کہ زمین پر فلسطینی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں گے ، ان کی مدد کے لیے علیحدہ افواج بھی ہوں گی، انڈونیشیا نے اس کے لیے 20 ہزار فوجی دینے کی پیشکش کی ہے ، مجھے یقین ہے پاکستان کی قیادت بھی اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف غزہ کے لیے ایک خصوصی فورس ہوگی اور اس کی تعیناتی کا انتظام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دستاویزی شکل میں درج ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان سمیت 8 ممالک نے یہ معاملہ صدر ٹرمپ کے سامنے بہت فعال انداز میں اٹھانے پر اتفاق کیا ہے ۔ وزیر خارجہ کے مطابق ٹرمپ سے ملاقات کا مقصد غزہ میں جنگ بندی، انسانی امداد کی بلا رکاوٹ ترسیل، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی روکنا، بے گھر افراد کی واپسی کا انتظام، غزہ کی تعمیرِ نو اور اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ضم کرنے کی کوششوں کو روکنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقاصد انہیں (ٹرمپ) بتائے گئے اور ان سے کہا گیا کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد فیصلہ ہوا کہ اجلاسوں کی تفصیلات خفیہ اور کلاسفائیڈ رہیں گی۔ اسحٰق ڈار نے مزید بتایا کہ سعودی ہم منصب نے انہیں پیغام بھیجا کہ 5 ممالک مشترکہ اعلامیہ پر متفق ہوگئے ہیں اور پاکستان کی رضامندی بھی ضروری ہے ، اور انہوں نے انڈونیشیا اور یو اے ای سے بھی رابطہ کیا ہے ۔