نیتن یاہو کے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کامسلم ممالک نے بائیکاٹ کیا

,

   

نیو یارک، 26 ستمبر (یو این آئی) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے آج اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے خطاب کیا۔ نیتن یاہو کے آج جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کے موقع پر عرب اور مسلم ممالک نے اسرائیلی وزیر اعظم کی تقریر کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر کے دوران مسلم ممالک کے مندوب اسمبلی ہال سے اٹھ کر چلے گئے۔نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل منصوبے کی بات کی تھی جسے مسلم ممالک کے رہنماوں نے عرب ممالک کی سلامتی اور علاقائی استحکام کیلئے خطرہ قرار دیا تھا۔ جنرل اسمبلی میں تقاریر کے آج دو سیشنز ہوئے جن میں سے پہلے سیشن میں 15 اسپیکرس نے خطاب کیا جبکہ دوسرے سیشن میں 10 اسپیکر س نے خطاب کیا۔

اسرائیل۔فلسطین بحران: نیتن یاہو کو امریکی منصوبہ کیوں قبول نہیں؟
امریکہ کا 21 نکاتی منصوبہ، مگر اسرائیل کی ہٹ دھرمی برقرار، نیتن یاہو کو حماس کیساتھ فلسطینی اتھاریٹی کا صفایا مطلوب

نیویارک۔ 26 ستمبر (ایجنسیز) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کی جانب سے مغربی کنارے کو ضم کرنے اور غزہ میں جنگ جاری رکھنے کی دھمکیوں پر سخت ردعمل دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا کہ اب رکنے کا وقت آ گیا ہے اور اسرائیل کو مغربی کنارہ ضم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب نیتن یاہو اپنی دائیں بازو کی اتحادی جماعتوں کے دباؤ میں ہیں۔ وہ اس وقت نیویارک میں موجود ہیں اور جمعہ کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد پیر کو صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق واشنگٹن کی جانب سے دباؤ بڑھ رہا ہے کہ نیتن یاہو غزہ میں جنگ بندی پر مبنی امن منصوبہ قبول کریں اور ممکنہ طور پر غزہ کا انتظام فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا جائے۔امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے انکشاف کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے جس پر آئندہ دنوں میں پیش رفت متوقع ہے۔ یہ منصوبہ منگل کو نیویارک میں عرب اور اسلامی ممالک کے چند رہنماؤں کو بھی پیش کیا گیا تھا۔منصوبے میں کئی اہم نکات شامل ہیں: تمام باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی اور فائر بندی کا مستقل نفاذ، غزہ سے اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلا، ایسا سیاسی و انتظامی نظام قائم کرنا جس میں حماس شامل نہ ہو، فلسطینیوں اور عرب و اسلامی ممالک کے اہل کاروں پر مشتمل ایک سکیورٹی فورس کی تشکیل، عرب ممالک کی مالی معاونت کے ذریعے غزہ کی تعمیر نو اور فلسطینی اتھارٹی کو محدود انتظامی کردار دینا۔نیتن یاہو اس منصوبے کے کئی پہلوؤں سے ناخوش ہیں۔ ان کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس میں غزہ کے مکمل غیر مسلح ہونے کی شرط فوری طور پر شامل نہیں کی گئی بلکہ اسے جنگ کے اختتام کے بعد رکھا گیا ہے۔ اسی طرح وہ فلسطینی اتھارٹی کو کسی بھی انتظامی کردار دینے کے سخت مخالف ہیں۔اس سے قبل نیتن یاہو کی حکومت نے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے پانچ شرائط رکھی تھیں، جن میں شامل ہیں: حماس کا مکمل غیر مسلح ہونا، تمام قیدیوں کی واپسی (زندہ یا مردہ)، غزہ سے اسلحے کا خاتمہ، اسرائیلی سلامتی کنٹرول برقرار رکھنا اور ایک ایسی سیول انتظامیہ کا قیام جس میں نہ حماس شامل ہو اور نہ فلسطینی اتھارٹی۔نیتن یاہو پیر کو صدر ٹرمپ سے اپنی چوتھی ملاقات کریں گے۔ روانگی سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ وہ اسرائیلی فتوحات سے پیدا ہونے والے عظیم مواقع اور جنگ کے مقاصد کی تکمیل پر بات کریں گے۔ امریکی دباؤ اور بین الاقوامی تنقید کے تناظر میں یہ سوال شدت اختیار کر گیا ہے کہ آیا اسرائیل ٹرمپ کا امن منصوبہ قبول کرے گا یا نیتن یاہو بدستور اپنے سخت موقف پر قائم رہیں گے۔