آکلینڈ۔ 12 اگست (سید مجیب کی رپورٹ) نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے معاملے پر منگل کو شدید بحث کے دوران حزبِ اختلاف کی رکن اور گرین پارٹی کی شریک سربراہ کلوی سواربریک، کو ایوان سے باہر نکال دیا گیا۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اسپیکر جیری براؤنلی نے انہیں متنازعہ بیان واپس لینے اور معافی مانگنے کا کہا، تاہم انہوں نے انکار کر دیا۔ سواربریک نے کہا کہ نیوزی لینڈ “دنیا سے پیچھے رہ گیا ہے” اور حکومت کا فیصلہ مؤخر کرنا “قابلِ افسوس” ہے۔ انہوں نے وزرا سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کو جنگی جرائم پر سزا دینے سے متعلق مارچ میں پیش کیے گئے بل کی حمایت کریں، جسے تمام اپوزیشن جماعتوں کا تعاون حاصل ہے۔اس بحث کا پس منظر یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کی دائیں بازو کی حکومت نے پیر کو اعلان کیا کہ وہ ستمبر میں فلسطین کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کرے گی۔ اس سے قبل آسٹریلیا، کینیڈا، برطانیہ اور فرانس نے اقوام متحدہ کے ستمبر اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ حکومت آئندہ ایک ماہ میں ضروری معلومات اکٹھی کرے گی اور شراکت دار ممالک سے مشاورت کرے گی، تاکہ کابینہ فیصلہ کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ جلدبازی میں طے نہیں کیا جائے گا بلکہ احتیاط سے دیکھا جائے گا۔گرین پارٹی کے ساتھ ساتھ لیبر اور ’تی پاتی ماوری‘ پارٹیاں بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں ہیں۔ لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ بینی ہیناری نے کہا کہ نیوزی لینڈ ہمیشہ اپنے اصولوں پر ڈٹا رہا ہے، مگر فلسطین کے معاملے میں “ان سے دستبردار ہو گیا ہے”۔براؤنلی نے وضاحت کی کہ سواربریک بدھ کو واپس آ سکتی ہیں، لیکن اگر انہوں نے معافی سے انکار جاری رکھا تو دوبارہ ایوان سے باہر کر دی جائیں گی۔