نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کو مسجدحملے پر فلم بنانے پر اعتراض

   

آکلینڈ : نیوزی لینڈ کی مسلمان کمیونٹی نے 2019میں کرائسٹ چرچ کی مساجد میں ہونے والے حملوں پر فلم بنانے کے ارادے پراعتراض کیا ہے۔ کمیونٹی کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاندانوں اور مسلم برادری کے لئے ابھی اس سانحے کا غم تازہ ہے۔ اس حملے میں 51افراد ہلاک ہوئے تھے۔ رائٹرز نے ہالی ووڈ رپورٹر کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس مجوزہ فلم کا نام ’دے آر اس‘ یعنی ‘وہ ہم ہیں’ تجویز کیا گیا ہے اور یہ عنوان حملے کے بعد چالیس سالہ وزیراعظم جسنڈا آرڈرن کے ایک ہمدردانہ بیان میں استعمال ہونے والے الفاظ پر مبنی ہے۔ ان کے اس ہمدردانہ ردعمل نے نہ صرف صدمے سے دوچار نیوزی لینڈ کو متحد کیا بلکہ اسے پوری دنیا میں سراہا گیا۔فلم کے بارے میں نیوزی لینڈ کی تنظیم مسلم ایسوسی شن آف کینٹربری کے ترجمان عبدگانی علی کا کہنا ہے کہ اس حملے کے ردعمل پر وزیراعظم آرڈرن بلاشبہ تعریف کی مستحق ہیں، تاہم ایک ایسے وقت میں جب ہمارے زخم ابھی ہرے ہیں اور یہ سانحہ اب بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے، اس فلم کو بنانا مناسب نہیں۔دوسری جانب وزیر اعظم جسنڈا آرڈرن کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا اس فلم سے کوئی تعلق نہیں۔اداکارہ روز بائرن نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے واقعے پر بننے والی فلم میں وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن کا کردار ادا کریں گی۔اداکارہ روز بائرن نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے واقعے پر بننے والی فلم میں وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن کا کردار ادا کریں گی۔اس فلم میں آرڈرن کا کردار نبھانے کے لیے آسٹریلوی اداکارہ روز بائرن کا انتخاب کیا گیا ہے جبکہ نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے اینڈریو نکول اس کے مصنف و ہدایت کار ہوں گے۔ نکول کا کہنا کہ ‘دے آر اس’ کا مرکز دراصل مساجد پر حملے نہیں، بلکہ وزیراعظم آرڈرن کا اس حملے پر ردعمل ہے، جو خود ایک متاثرکن کہانی ہے۔تاہم نیوزی لینڈ کی مسلمان کمیونٹی نے اس بیان پر بھی سوال اٹھایا ہے۔آکلینڈ سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد حسن نے ایک ریڈیو براڈکاسٹ میں کہا کہ ‘یہ متاثر کرنے والی کہانی نہیں بلکہ ایک سانحہ ہے، جس کا محور صرف اور صرف اس میں مارے جانے والے مسلمان اور ان کے خاندان ہیں، دوسرا کوئی نہیں’