نیوزی لینڈ کے میانمار سے سفارتی، فوجی اور سیاسی تعلقات منقطع

   

فوجی بغاوت کے بعدبین الاقوامی سطح پر پہلا شدید ردعمل ، فوجی جنرلوں کے نیوزی لینڈ کے سفر پر پابندی

ویلنگٹن : میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد جہاں کئی ممالک میں آنگ سان سوچی کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں، وہیں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسنڈا آرڈن نے میانمار کے ساتھ تمام سفارتی، فوجی اور سیاسی تعلقات منقطع کرلئے ہیں تاکہ بغاوت کے بعد فوج کے برسراقتدار آنے کے عمل کو غیرقانونی قرار دیا جاسکے اور فوجی حکومت کو یکاوتنہا کردیا جائے۔ یاد رہیکہ میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد نیوزی لینڈ کی جانب سے کیا جانے والا یہ اقدام اب تک کا بہترین بین الاقوامی ردعمل ہے۔ جسنڈا آرڈن اپنی انصاف پسندی کیلئے بیحد پسند کی جاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ کی جن دو مساجد میں تقریباً دو سال پہلے جو دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا، اس کے بعد بھی جسنڈا آرڈن نے کرائسٹ چرچ کے مسلمانوں سے اظہارہمدردی اور تعزیت کیا تھا۔ میانمار کے تعلق سے بھی جسنڈا آرڈن نے بین الاقوامی برادری کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہیکہ میانمار میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی شدید مخالفت کی جانی چاہئے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ میانمار میں جمہوریت کی بحالی انتہائی پیچیدہ حالات کا سامنا کرنے کے بعد ہوئی جہاں ملک کی کونسلر آنگ سان سوچی کا اہم رول رہا لیکن جمہوریت حاصل کرنے سے عوام کو جو خوشی ملی وہ دیرپا ثابت نہیں ہوسکی اور ایک بار پھر ’’لوٹ کے بدھو گھر کو آئے‘‘ کے مصداق میانمار میں فوج نے ننگاناچ شروع کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم میانمار میں جمہوریت کی بحالی کے لئے یہاں سے جو کچھ بھی ہوسکتا ہے وہ ضرور کریں گے جن میں سب سے اہم قدم یہ ہوگا کہ میانمار کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں کے نیوزی لینڈ کے سفر پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ یاد رہیکہ گذشتہ ہفتہ میانمار میں ہوئی فوجی بغاوت کے بعد آنگ سان سوچی کے علاوہ دیگر کئی اعلیٰ عہدیداروں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ جسنڈا آرڈن نے کہا کہ نیوزی لینڈ اس بات کا خواہاں ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میانمار میں پائے جانے والے حالات پر تبادلہ خیال کرنے ایک خصوصی سیشن کا انعقاد کرے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میانمار کیلئے نیوزی لینڈ کی جانب سے 42 ملین ڈالرس کا جو امدادی پروگرام ہے وہ بدستور جاری رہے گا۔ تاہم اب اس بات پر نظر رکھی جائے گی کہ خطیر رقمی امداد فوجی حکومت کے ہاتھ نہ لگے۔ اس معاملہ میں اب ہمیں انتہائی محتاط رہنا پڑے گا۔